چند روز قبل ہم ایک خوفناک ٹریفک حادثے کا شکار ہونے سے بال بال بچ گئے۔ ہوا یوں کہ ایک موٹرسائیکل سوار نے ٹریفک سگنل کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے شتر بے مہار کی طرح ہمیں اس وقت اچانک ٹکر ماردی جب ہم صدر کے علاقے میں پیدل ایک سڑک پارکر رہے تھے۔
خدا کا شکر ہے کہ ہمیں کوئی شدید چوٹ نہیں آئی ورنہ تو جس عقابی انداز میں وہ شخص بلائے ناگہانی بن کر ہم پر جھپٹا تھا، اس کے نتیجے میں تو کچھ بھی ہوسکتا تھا۔موٹرسائیکل سوار کی ٹکر کا نشانہ بننے کا ہمارے ساتھ یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ ٹریفک کے قوانین کی سب سے زیادہ خلاف ورزی موٹرسائیکل سوار ہی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
یہ نہ دائیں دیکھتے ہیں اور نہ بائیں۔ سگنل کی بتی سرخ ہے یا زرد انھیں اس کی ذرا بھی پروا نہیں ہوتی۔ ان کی بس یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنا راستہ بنالیا جائے،خواہ اس کے نتیجے میں کسی انسان کو ٹکر لگے یا کسی گاڑی کو۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اب تو نہایت کم عمر لڑکے بالے بے دھڑک پوری رفتارکے ساتھ صرف شاہراہوں اور سڑکوں ہی پر نہیں بلکہ شہر کے گلی کوچوں میں آزادانہ موٹر سائیکلیں دوڑاتے ہوئے پھرتے ہیں اور شتران بے مہار کی ناک میں نکیل ڈالنے والا کوئی مائی کا لعل ہمیں نظر نہیں آتا۔
یوں تو وطن عزیزکے ہر شہر میں ٹریفک کا حال ناقابل اطمینان ہے، لیکن جو حشر آپ کو کراچی میں نظر آئے گا اس کا شاید کسی اور شہر میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ٹریفک کے قوانین تو ضرور موجود ہیں لیکن اصل مسئلہ ان کے نفاذ کا ہے جس کی ذمے داری ٹریفک پولیس کے عملے پر عائد ہوتی ہے جس کی رشوت ستانی کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔گزشتہ دنوں ڈرائیونگ لائسنس کے بارے میں سخت احکامات جاری کیے گئے تھے مگر اس کے لیے جو مدت مقرر کی گئی تھی وہ ناقابل عمل اور انتہائی قلیل تھی جس کی وجہ سے ان احکامات میں ترامیم کرنا پڑی جوکہ ایک مناسب اور معقول اقدام تھا۔
متعدد بیرونی ممالک میں ڈرائیونگ لائسنس کے اجرا کا عمل بالکل سائنٹفک اور شفاف ہے جس میں کسی قسم کی رعایت یا بددیانتی کی رتی بھر گنجائش بھی موجود نہیں ہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ اب ہمارے محکمہ ٹریفک لائسنس میں بھی بیداری کی ایک لہر اٹھتی ہوئی نظر آرہی ہے جس کی بنا پر یہ امید پیدا ہوچلی ہے کہ ہمارا برسوں پرانا ٹریفک کا نظام بھی مستقبل قریب میں سدھر جائے گا۔ تاہم کرپشن اور بدعنوانی کی دلدل میں سالہا سال سے دھنسے ہوئے اس فرسودہ نظام کو باہر نکال کر صحیح خطوط پر استوار کرنا بھی کوئی آسان کام نہ ہوگا۔ البتہ جہاں چاہ وہاں راہ والی کہاوت کے مصداق عزم مصمم کے ذریعے بڑے سے بڑے پہاڑ جیسے مسئلے کو بھی بالآخرکسی نہ کسی طرح حل ضرور کیا جاسکتا ہے۔
ٹریفک کے مسائل کے اعتبار سے ہمارا ملک کوئی اکیلا یا سب سے انوکھا ملک نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے درمیانے آمدنی والے ممالک میں تقریباً 1.25 ملین قیمتی انسانی جانیں ٹریفک کے حادثات میں ضایع ہوجاتی ہیں اور یہ شرح 90 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ ان ممالک کی مجموعی آبادی دنیا 82 فیصد آبادی پر مشتمل ہے۔
ٹریفک کے ان حادثات کے نتیجے میں جو مالی نقصان ہوتا ہے اس کی شرح جی ڈی پی کی 5 فیصد کے قریب ہے۔اتنے لوگ دہشت گردی کی وارداتوں میں نہیں مرتے جتنے ٹریفک حادثات میں مر جاتے ہیں۔ اس حوالے سے دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک ایک جیسے ہی ہیں۔ سب جگہ بدعنوانی اور لاپرواہی کے باعث ٹریفک قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ لائسنس بنانا بھی انتہائی آسان ہے ۔ ڈرائیور کو قوانین کا چاہے کچھ پتہ ہو یا نہ ہو لیکن اسے لائسنس با آسانی مل جاتا ہے۔
روڈ سیفٹی سے متعلق مرتب کی گئی ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق جنوب مشرقی ایشیا اور مغربی پیسیفک کے علاقوں میں روڈ ٹریفک حادثات کے نتیجے میں ہونے والی ایک تہائی اموات میں موٹرسائیکل سوار ملوث ہوتے ہیں۔ ان کا نشانہ بننے والوں میں پیدل چلنے والوں کے علاوہ عام سائیکل سوار بھی شامل ہوتے ہیں۔
اسی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے 80 فیصد ممالک میں فروخت ہونے والی موٹرگاڑیاں روڈ سیفٹی کے بنیادی معیارات پر بھی پوری نہیں اترتیں۔ 2010 کے بعد سے دنیا کے 68 ممالک میں ٹریفک حادثات میں اضافے کا رجحان پایا گیا ہے۔ ان میں سے 84 فیصد ممالک وہ ہیں جو مڈل انکم گروپ میں شمار کیے جاتے ہیں۔پاکستان میں بھی ٹریفک حادثات کی شرح بہت زیادہ ہے اور یہاں بھی سب سے زیادہ اموات ٹریفک حادثات ہوتی ہیں ۔ٹریفک حادثات کی بڑی وجہ موٹر سائیکل سوار بنتے ہیں۔
جن ممالک میں روڈ ٹریفک کے حادثات میں واقع ہونے والی اموات کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے، ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جہاں ٹریفک کے قوانین اور ان کے نفاذ میں اصلاحات کی گئی ہیں۔ان اصلاحات کی وجہ سے ٹریفک حادثات میں خاصی حد تک کمی آئی ہے۔ افریقی ریجن میں ٹریفک حادثات کی شرح سب سے زیادہ ہے جب کہ یورپی ممالک میں یہ شرح مقابلتاً بہت کم ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ ان ممالک میں موٹر سائیکل یا گاڑی چلانے کے لیے لائسنس حاصل کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ 2010 اور 2015 کے درمیان امریکی خطوں میں موٹرسائیکل کے حادثات کے نتیجے میں واقع ہونے والی اموات کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ایک عام رجحان یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ موٹر گاڑیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ ٹریفک حادثات کی شرح میں بھی کسی نہ کسی حد تک اضافہ ضرور ہوا ہے۔
متذکرہ بالا رپورٹ کے مطابق وطن عزیز پاکستان دنیا کے ان 80 ممالک کی فہرست میں نمایاں طور پر شامل ہے جہاں ٹریفک حادثات کی بھینٹ چڑھ کر اپنی جان سے ہاتھ دھونے والوں کے اندراج کی صورتحال قطعی غیر تسلی بخش ہے اور اس معاملے میں دستیاب اعداد وشمار غیر مصدقہ اور ناقابل اعتبار ہیں۔ ہمارے ملک میں نیشنل ٹرانسپورٹ ریسرچ سینٹر نامی ادارے اس کام کے لیے موجود ہے لیکن وطن عزیز کے دیگر اداروں کی طرح یہ بھی بے توجہی اور فنڈز کی کمی کا شکار ہے اور وفاقی بجٹ میں اسے عرصہ دراز سے عملاً نظر انداز ہی کیا جاتا رہا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں روڈ سیفٹی سے متعلق کوئی منظم اور مربوط پالیسی ہی ترتیب نہیں دی گئی جس کی وجہ سے لوگ سڑکوں اور شاہراہوں پر ٹریفک حادثات کے نتیجے میں کتے بلیوں کی طرح آئے دن ہلاک ہوتے رہتے ہیں اور ان بے چارے ہلاک شدگان کے لواحقین کی زندگیاں اجیرن ہوتی رہتی ہیں۔
وطن عزیز کے معروف ترین شہر کراچی میں منی بسوں،کوچوں اور ٹینکروں کے ڈرائیور جن میں نشے باز اور بغیر لائسنس والے قاتل شامل ہیں لوگوں کو انتہائی سفاکی اور بے دردی سے روندنے کے بعد بڑی آسانی سے فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور ان کے بدقسمت اور بے بس لواحقین محض ہاتھ ملتے ہوئے رہ جاتے ہیں اور پولیس والے صرف ضابطے کی رسمی کارروائی کے سوا اور کچھ بھی نہیں کرتے۔ ارباب بست وکشاد سے ہماری درخواست ہے کہ خدارا، ٹریفک کے نظام کی اصلاح کے لیے فوری اور موثر اقدامات کیے جائیں تاکہ مزید قیمتی جانوں کو ضایع ہونے سے بچایا جاسکے۔
شکیل فاروقی
0 Comments