پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اس بار ایم کیو ایم کی بلدیاتی جیت دہلی میں اروند کیجری وال کی جیت سے زیادہ اہم ہے۔
کیونکہ ایم کیو ایم کے برعکس عام آدمی پارٹی پر کبھی دہشت گردی ، فاشزم، ملک دشمنی، دہلی کو یرغمال بنانے، کرپشن، ٹارگٹ کلنگ، غداری اور متعصب ہونے کا الزام نہیں لگا اور نہ عام آدمی پارٹی کے دفاتر سے کارکن، اسلحہ اور مطلوبہ افراد پکڑے گئے۔
کراچی میں پچھلے 27 برس میں منعقد ہونے والے یہ پہلے بلدیاتی انتخابات تھے جن میں ہر پولنگ سٹیشن کے اندر اور باہر پولیس اور رینجرز کو تعینات کیا گیا۔انھیں ہنگامہ آرائی کرنے والوں سے نمٹنے کے لیے مجسٹریٹی اختیارات دیے گئے۔
جس سیاسی جماعت نے جہاں چاہا انتخابی اجتماع کیا اور انتخابی ریلیاں نکالیں۔امید تھی کہ ہر بار دھاندلی کر کے گن پوائنٹ پر ووٹ لینے والی ایم کیو ایم کو لگ پتہ جائے گا کہ عوام کس طرح بلٹ کا جواب بیلٹ سے دیتے ہیں۔مگر کراچی والوں نے خوف و دہشت سے پاک اس سنہری موقع سے بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔
ایم کیو ایم نے کوئی انتخابی منشور نہیں دیا بلکہ یہ کہا کہ ہماری کارکردگی ہی ہمارا منشور ہے۔
سیاسی جماعتوں کا منشور
ایم کیو ایم نے کوئی انتخابی منشور نہیں دیا بلکہ یہ کہا کہ ہماری کارکردگی ہی ہمارا منشور ہے۔اس کے برعکس عمران خان نے کراچی کو ایک پرامن اور ترقی یافتہ شہر بنانے کے لیے خیبر پختونخوا ماڈل کی بارہا مثالیں دیں۔ جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب نے وعدہ کیا کہ اس بار کراچی والے اگر انہیں کامیاب کر دیں تو نہ صرف اس شہر سے دہشت گردی کے منحوس سائے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جائیں گے بلکہ کراچی کو ترقی کے اعتبار سے استنبول بنا دیا جائے گا۔ مگر افسوس کہ کراچی کی اکثریت کو یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آئی اور بیشتر گھروں میں بیٹھ کر فلمیں دیکھتے رہے۔
اس کے برعکس عمران خان نے کراچی کو ایک پرامن اور ترقی یافتہ شہر بنانے کے لیے خیبر پختونخوا ماڈل کی بارہا مثالیں دیں۔
سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں 70 کے عشرے میں جب کچھ لوگوں کو اغوا کیا گیا تو ان میں سے کسی نے بھی عدالت میں اغواکاروں کو شناخت نہیں کیا بلکہ ایک مغویہ تو ایک اغوا کار کی محبت میں مبتلا ہوگئی اور شادی کر لی۔ تب سے نفسیات میں سٹاک ہام سنڈروم کی اصطلاح داخل ہوئی ( یعنی زیادتی کرنے والے سے انسیت ہو جانا )۔ لگتا ہے کراچی کو سٹاک ہام سنڈروم ہوگیا ہے۔
جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے بتیس سو کے مقابلے میں سات سو ووٹ لیے اور اسے کھلی دھاندلی قرار دیا۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے ایک رکنِ اسمبلی خرم شیر زمان نے کہا کہ رینجرز نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے اور یہ کہ الیکشن کمیشن بھی منصفانہ انتخابات کرانے میں ناکام رہا ۔ لیکن سب سے بہتر، متوازن اور جمہوری ردِعمل تحریکِ انصاف کراچی کے صدر علی زیدی کا تھا۔انہوں نے کہا جنھوں نے ایم کیو ایم کو ووٹ دیا انھیں شرم آنی چاہیے۔
2009 میں پانی پت سے دہلی کی طرف آتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک کھٹارہ بس جس میں سے سیاہ دھواں نکل رہا ہے اس کے پیچھے ہندی میں بڑا بڑا لکھا تھا
’یو تو نوئی چلے گی ‘ ( یہ تو ایسے ہی چلے گی )۔
جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے بتیس سو کے مقابلے میں سات سو ووٹ لیے اور اسے کھلی دھاندلی قرار دیا
ایم کیو ایم کراچی میں جس بے دردی سے جیتی اور اس کے مخالفین جس شاندار طریقے سے ہارے اس کے بعد میرا سوال ہے کہ جب کراچی والے ترقی نہیں کرنا چاہتے تو انھیں بار بار ترقی پر مجبور کیوں کیا جا رہا ہے؟
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
کیونکہ ایم کیو ایم کے برعکس عام آدمی پارٹی پر کبھی دہشت گردی ، فاشزم، ملک دشمنی، دہلی کو یرغمال بنانے، کرپشن، ٹارگٹ کلنگ، غداری اور متعصب ہونے کا الزام نہیں لگا اور نہ عام آدمی پارٹی کے دفاتر سے کارکن، اسلحہ اور مطلوبہ افراد پکڑے گئے۔
0 Comments