قومی مردم شماری و خانہ شماری کی اہمیت وافادیت سے انکار ممکن نہیں کہ مستقبل کے بارے میں دوررس نتائج برآمد کرنے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ مثلاً نئی مردم شماری کے نتائج موصول ہونے کے بعد تمام قومی اعداد وشمار اوراقتصادی اعشاریے بھی تبدیل ہوجائیں گے، ملک کی درست آبادی کا تعین ہوگا، اسی حساب سے معاشی و اقتصادی اہداف کا تخمینہ لگایا جاسکے گا۔ قومی، صوبائی اور بلدیاتی حلقہ بندیاں کی جاسکیں گی اور آبادی کے لحاظ سے انتخابی نشستوں کا تعین کیا جاسکے گا۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان فنڈزکی تقسیم کا تنازعہ بھی حل ہوجائے گا۔
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ ملک بھر میں چھٹی قومی مردم شماری اور خانہ شماری رواں سال مارچ 2016 میں ہوگی، جب کہ مردم شماری کے عبوری نتائج جون 2016 میں پیش کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ مشترکہ مفادات کونسل نے 18 مارچ 2015 کو وزیر اعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں مسلح افواج کے تعاون سے مارچ 2016 میں مردم شماری کرانے کی منظوری دی تھی۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق مردم شماری کے عمل کو شفاف انداز میں مکمل کرنے کے لیے جامع حکمت عملی تیارکرلی گئی ہے جس کے تحت ملک بھر میں مردم شماری کا آغاز کیا جائے گا۔ مردم شماری اورخانہ شماری پنجاب، سندھ، کے پی کے، بلوچستان، فاٹا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بیک وقت کی جائے گی۔
اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں کے انتظامی حدیں بڑھانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے، ملک کو ایک لاکھ 62 ہزار بلاکس میں تقسیم کردیا گیا ہے، مردم شماری میں 2 لاکھ سے زائد ملازمین کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ شماریات ڈویژن کے مطابق ملک میں مردم شماری کرانے کی تیاریاں تقریباً مکمل ہوچکی ہیں، مردم شماری کے لیے 4 کروڑ 20 لاکھ فارم تیار ہیں جو 2008 کی مردم شماری کے لیے تیار کیے گئے تھے۔
مردم شماری میں پناہ گزینوں اور ڈپلومیٹ کو شامل نہیں کیا جائے گا، مردم شماری کے لیے جو بلاکس بنائے جاچکے ہیں ان میں ہر ایک بلاک میں 200 سے 250 گھر ہوں گے۔ اس حوالے سے صوبائی حکومتوں سے مدد حاصل کی جائے گی، مقامی اساتذہ، پٹواریوں اور دیگر ملازمین کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ یہ مردم شماری فوج کی نگرانی میں ہوگی، ملک میں کل 151 اضلاع ہیں۔ مردم شماری کے کام کے لیے 205397 افراد کی ضرورت ہوگی۔
شماریات ڈویژن کے مطابق ان کا ڈیٹا صرف الیکشن کمیشن استعمال کرسکتا ہے۔ کسی بھی ایجنسی کو کسی بھی شخص کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کرتے۔ اس وقت ملک میں شرح پیدائش 1.94 فیصد چل رہی ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز آبادی میں اضافے کے رجحان کے حوالے سے ہر سال سروے کراتا ہے، اس کے سروے کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق غیر قانونی طور پر مقیم افرادکا ڈیٹا بھی اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، 19 روز میں مردم شماری، ہاؤس سٹنگ اور بے گھر افراد کا ڈیٹا اکٹھا کرلیا جائے گا، جھوٹی معلومات دینے پر 6 ماہ کی سزا ہوسکتی ہے۔
مردم شماری پر مجموعی طور پر ساڑھے 14 ارب روپے خرچ ہوں گے، جب کہ 2 لاکھ 5 ہزار فوجی جوان ڈیوٹی دیں گے۔ اس سے قبل مکمل مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی اور اس کے لیے ڈھائی لاکھ فوجی جوان تعینات کیے گئے تھے۔ اس وقت بلاکس کی تعداد ایک لاکھ 4 ہزار تھی۔
واضح رہے کہ ملک میں آخری مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی۔ یاد رہے کہ ملک میں ہر دس سال بعد قومی مردم شماری بالترتیب 1951، 1961، 1972، 1981، 1991 میں پانچویں مردم شماری ہونی تھی، ابتدائی مرحلے میں خانہ شماری کا کام مکمل کرلیا گیا تھا لیکن اندرون سندھ آبادی میں 770 فیصد تک اضافے کی ناقابل یقین رپورٹوں کے پیش نظر یہ عمل روک دیا گیا تھا۔ اس وقت کی خانہ شماری کے نتائج کے مطابق پاکستان کی آبادی 81 ملین سے بڑھ کر 133 ملین ہوگئی تھی۔ یاد رہے کہ 1991 کی مردم شماری تین مرتبہ ملتوی ہونے کے بعد یکم مارچ سے 13 مارچ 1998 کو ہوئی۔
واضح رہے کہ 2010 میں سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل نے ملک میں مردم شماری کے انعقاد کی منظوری دی تھی جس کے تحت ملک میں خانہ شماری اکتوبر 2010جب کہ چھٹی مردم شماری مارچ 2011 میں ہونا تھی مگر بوجوہ نہیں ہوسکی تھی۔ اس سے قبل بھی 2008 میں چھٹی مردم شماری ہونی تھی تاہم بعض وجوہات کے باعث اسے ایک سال کے لیے موخر کردیا تھا جب کہ 2009 میں فاٹا، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کے کہنے پر ایک مرتبہ پھر مردم شماری و خانہ شماری موخر کردی گئی تھی۔
بعدازاں وزیر اعظم محمد نواز شریف نے 2014 میں قومی مردم شماری کرانے کے احکامات جاری کردیے تھے، تاکہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق کروائے جاسکیں۔ وزیر اعظم نے الیکشن کمیشن کے خط کے جواب میں ادارہ شماریات کو حکم دیا کہ چاروں صوبوں میں مردم شماری کے لیے تیاریاں کی جائیں۔ الیکشن کمیشن نے خط میں وزیر اعظم سے درخواست کی تھی کہ ملک میں مردم شماری یقینی بنائی جائے۔ قبل ازیں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے ملک میں مردم شماری کرانے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف کو خط لکھا تھا۔
مردم شماری کے نہ ہونے کے باعث کراچی سمیت اندرون سندھ میں بلدیاتی حلقہ بندیوں کی تشکیل کے موقعے پر کئی اضلاع میں آبادی کم اور ووٹرز کی تعداد زیادہ آرہی تھی۔ کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جن کا وجود 1998 کی مردم شماری میں نہیں ہے تاہم نئی آبادکاری 2011 کی خانہ شماری کی بنیاد پر یہاں بلدیاتی حلقے تشکیل دیے گئے ہیں۔
اسی طرح سندھ اور بالخصوص کراچی جو بڑھتی ہوئی آبادی کی زد میں ہے حقیقی فنڈز سے محروم نہیں ہوگا اور عوام اپنے جائز حق سے محروم نہیں رہیں گے۔ کراچی کی آبادی 1998 کی مردم شماری کے مطابق 98,20700 ہے جس میں سے 8811070 کی آبادی شہری حکومت کا حصہ ہے جب کہ 1009630 کی آبادی کنٹونمنٹ بورڈ کے حصے میں شامل ہے۔ جب کہ 2011 کی خانہ شماری کے بلاکس کی بنیاد پر انتخابی فہرستوں میں کراچی میں ووٹرز کی تعداد 71 لاکھ سے زائد ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اس وقت شہر کراچی میں رجسٹرڈ ووٹرز 7082319 ہے ان میں 40 لاکھ سے زائد مرد جب کہ خواتین ووٹرز کی تعداد 301735 ہے۔ واضح رہے کہ 5 دسمبر 2015 کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے۔
قانون کے مطابق فنڈز کا اجرا آبادی و غربت اور دیگر عوامل کے مطابق کیا جاتا ہے، کراچی میں 1998 کی مردم شماری کے موقعے پر کئی مقامات پر آبادی کا یا تو وجود ہی نہیں تھا یا آبادی 100 افراد سے بھی کم تھی تاہم 16 سال کے دوران ہزاروں افراد کی نقل مکانی بالخصوص کراچی کے مضافات میں کئی بستیاں وجود میں آگئی ہیں۔
مردم شماری کے لحاظ سے ضلع غربی میں دیہہ مٹھان کی آبادی صرف 99 افراد پر مشتمل تھی تاہم اب یہ گلشن بہار کی توسیع ہے اور ہزاروں افراد رہائش پذیر ہیں، ضلع شرقی میں باغ کورنگی میدانی علاقہ تھا اور آبادی کا کوئی وجود نہیں تھا، 5 سال قبل یہاں ہزاروں افراد کی آبادی ہوچکی ہے۔ 15 سال قبل گلستان جوہر کی میونسپل حدود الٰہ دین پارک سے پہلوان گوٹھ کی آبادی صرف 43 ہزار تھی اب یہاں کثیر تعداد میں فلیٹوں کی تعمیر ہونے سے آبادی لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ علاوہ ازیں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کرکے پاکستانی شہریت حاصل کرچکی ہے۔ اس ضمن میں حکومت اقدامات کر رہی ہے۔
ہرچند کہ پاکستان میں مردم شماری اپنی مقرر کردہ دس سالہ مدت کے عرصے میں کبھی نہیں ہوئی بلکہ ایک سے دوسری مردم شماری کے دورانیے میں کئی کئی سال کا غیر ضروری وقفہ آتا رہا۔ اب جب کہ اگر مارچ 2016 میں مردم شماری ہونی ہے تو یہ 17 سال کے بعد ہوگی۔ حکومت اس امر کو یقینی بنائے کہ ہر دس سال بعد مردم شماری کا عمل بلاتاخیر منعقد ہوتا رہے تاکہ ملکی و قومی مسائل باآسانی حل ہوسکیں۔
شبیر احمد ارمان
0 Comments