Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی میں آپریشن کے بعد جرائم میں 90 فی صد تک کمی

پاکستان آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ (انٹر سروسز پبلک ریلشنز،آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل ،لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں آپریشن کے بعد جرائم میں 90 فی صد تک کمی واقع ہوئی ہے جبکہ شہر سے تشدد اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

وہ کراچی میں جمعہ کے روز ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ کراچی میں ستمبر 2013ء میں رینجرز کی قیادت میں آپریشن شروع کیا گیا تھا۔اس وقت شہر میں جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیاں،اہدافی قتل اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں عروج پر تھیں۔

انھوں نے صحافیوں کو اعداد وشمار کے حوالے سے کراچی میں جاری اس کارروائی کی تفصیل بتائی ہے اور کہا کہ گذشتہ ڈیڑھ ایک سال کے دوران رینجرز نے سات ہزار سے زیادہ چھاپہ مار کارروائیاں کی ہیں اور ان میں بارہ ہزار سے زیادہ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ان میں سے چھے ہزار کو پولیس کے حوالے کیا گیا ہے اور اب ان کے خلاف مختلف مراحل میں قانونی چارہ جوئی کی جارہی ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے بتایا کہ شہر میں برصغیر پاک وہند میں القاعدہ کا سب سے بڑا دہشت گرد گروپ بروئے کار تھا اور لشکر جھنگوی نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے تعاون سے شہر میں متعدد حملے کیے تھے۔
آپریشن کے آغاز کے وقت تمام دہشت گرد گروپ شہر میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کررہے تھے۔وہ تخریبی سرگرمیوں اور حملوں کے لیے ایک پول سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کو استعمال کررہے تھے۔ان میں سے ستانوے سخت گیر دہشت گردوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ان میں سے بھی چھبیس دہشت گردوں کے سروں کی قیمت مقرر تھی۔

انھوں نے بتایا کہ القاعدہ کے اسی گروپ نے کامرہ بیس پر حملے کی منصوبہ بندی کی تھی اور اس کو عملی جامہ پہنایا تھا،سکھر میں آئی ایس آئی کے بیس پر حملہ کیا تھا ،کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر بھی حملے میں یہی دہشت گرد ملوّث تھے۔انھوں نے کراچی جیل توڑنے کی کوشش کی تھی اور کراچی کے اعلیٰ پولیس افسر چودھری اسلم کو بم دھماکے میں ہلاک کیا تھا۔

آئی ایس پی آر کے ترجمان نے مزید بتایا کہ ''برصغیر میں القاعدہ کا لیڈر مثنیٰ کراچی میں دہشت گردی کی ان تمام کارروائیوں کا ماسٹر مائنڈ تھا اور وہی ان حملوں کے لیے رقوم کا بندوبست کیا کرتا تھا۔وہ افغانستان میں القاعدہ کے لیڈر کا نائب ہے۔دہشت گردوں کے ایک اور معاون کار حذیفہ کی تلاش جاری ہے اور اس کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ وہ اس وقت افغانستان میں ہے''۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ انھوں نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے ارد گرد پر نظر رکھیں تاکہ دہشت گرد وہاں نہ چھپ سکیں اور نہ دہشت گردی کی کسی واردات کی کوشش کرسکیں۔

انھوں نے بتایا کہ کراچی میں آپریشن کے نتیجے میں اہدافی قتل کے واقعات میں ستر فی صد ،بھتا خوری کے واقعات میں پچاسی فی صد اور اغوا برائے تاوان کے کیسوں میں نوّے فی صد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

انھوں نے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) شمالی وزیرستان میں ٹی ٹی پی اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کے خلاف پاک آرمی کے آپریشن ضربِ عضب کے حوالے سے بتایا کہ فاٹا میں دہشت گردوں کے تمام ٹھکانوں کو تباہ کردیا گیا ہے اور اب چند ایک جگہوں پر ہی ان کی کمین گاہیں رہ گئی ہیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ حیدر آباد میں جیل توڑنے کی سازش کو ناکام بنایا گیا ہے۔دہشت گرد ڈینیل پرل قتل کیس میں سزایافتہ مجرم احمد عمر سعید شیخ اور چند سال قبل کور کمانڈر کراچی پر حملے میں ملوّث مشتبہ شخص کو رہا کرانا چاہتے تھے۔یہ سازش تیار کرنے والوں کے پاس پینتیس قیدیوں کی ایک فہرست بھی تھی اور وہ انھیں جیل میں قتل کرنا چاہتے تھے۔اس سازش میں شریک کار ایک پولیس کانسٹیبل کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔

پاک فوج کے ترجمان نے صحافیوں کے سامنے حیدر آباد جیل کو توڑنے کی سازش میں شریک تین ہائی ویلیو اہداف (ملزموں) کو بھی پیش کیا۔ان کے نام نعیم بخاری ،محمد فاروق المعروف مثنیٰ اور صابر خان ہیں۔انھیں سکیورٹی فورسز نے پکڑا تھا۔

Post a Comment

0 Comments