Ticker

6/recent/ticker-posts

شیر کا احتساب کون کرے ؟

بری فوج کے سپاہ سالار جنرل راحیل شریف نے گذشتہ روز کوہاٹ کے سگنلز رجمنٹ سنٹر کے افسروں اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے سگنل دیا کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور امن و استحکام کے قیام کے لیے کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے اور مسلح افواج اس ضمن میں بلا امتیاز احتساب کی حامی ہیں ۔
حالانکہ اس بیان میں ایسا کچھ غیر معمولی نہیں جس پر تمام ٹی وی چینلز اور سیاستدانوں کے کان ریڈار کی طرح گھومنے لگیں مگر یہ پاکستان ہے۔
  
یہاں آرمی چیف کم کم بات کرتا ہے اور جب کرتا ہے تو بیسیوں تفسیریں کھل جاتی ہیں۔ ایک ایک لفظ کے معنی لغت الٹ پلٹ کے دیکھے جاتے ہیں۔ ہر اینکر ناظرین کو ڈرانا شروع کردیتا ہے اور ہر سیاستداں اپنے کردہ ناکردہ کی صفائیاں دینے لگتا ہے۔ بظاہر ایک معمول کے بیان کے پیچھے دراصل ایک غیر معمولی تاریخ ہے۔ پاکستان میں کسی بھی حکومت نے کبھی بھی کوئی ایسا خودمختار غیر جانبدار ادارہ تشکیل نہیں دیا جس کے بلا امتیاز احتسابی اختیارات و معیار کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر سراہا جا سکے۔
اس ملک میں ایوب خان سے پرویز مشرف تک جو بھی فوجی حکمران آیا اس نے بس دو کام کیے۔ احتساب کیا اور مسلم لیگ قائم کی۔ فیلڈ ماشل ایوب خان نے بد اعمال سیاستدانوں کو ایبڈو کے پتھر تلے داب دیا اور ’مثبت سوچ‘ رکھنے والے سیاستدانوں کو کنونشن مسلم لیگ کی نرسری میں داخل کر لیا۔ یحیٰی خان غریب کو احتسابی انجمن سازی کا پورا موقع ہی نہ مل پایا پھر بھی انہوں نے احتساب کے نام پر 313 افسر نکال دیے۔ (رپورٹ انھیں بھی ایجنسیوں نے یہی دی تھی کہ مغربی پاکستان میں قیوم مسلم لیگ اور جماعتِ اسلامی جیت رہی ہے)۔

ضیاالحق نے احتساب کے عمل کو اپنی حکمرانی کے اخلاقی جواز کی سیڑھی کے طور پر استعمال کیا اور جس جس نے سیڑھی کا پہلا پائیدان چوما اسے معصومیت کی سند دے کر براستہ نامزد مجلسِ شوری غیر جماعتی انتخابات کی بوگی میں بٹھا کر نئی مسلم لیگی لانڈری میں اتار دیا۔ اس لانڈری سے جو مسلم لیگی دھل دھلا کر نکلے وہ اگلے دس پندرہ سال میں پھر میلے ہوگئے چنانچہ اگلے جنرل پرویز مشرف نے نیب کے نام سے ایک اور جدید احتسابی واشنگ مشین تیار کی۔
’پلی بارگین‘ کا ڈیٹرجنٹ استعمال کیا اور مسلم لیگ ق، پیپلز پارٹی پیٹریاٹ اور قومی وطن پارٹی وغیرہ کو دھو دھلا کے ’ کرپٹ گٹھڑی‘ سے الگ کر دیا۔
مشکل یہ ہے کہ بلا امتیاز احتساب وہ مرغوب نعرہ ہے جس سے قاضی بھی متفق ہے اور چور بھی لیکن کیا ایسا احتساب ممکن بھی ہے؟

یہ سوال اس لیے اٹھتا ہے کیونکہ ضیا الحق نے محتسبِ اعلیٰ کا جو ادارہ بلا امتیاز احتساب کے نام پر قائم کیا اس کے دائرہِ اختیار سے عدلیہ ، فوج اور انٹیلی جینس ایجنسیوں کے خلاف شکایات کو پہلے دن ہی نکال دیا گیا۔ محتسبِ اعلی کے پاس ایسا کوئی تادیبی اختیار بھی نہیں جو عدم تعمیل کی صورت میں استعمال ہو سکے چنانچہ محتسبِ اعلی کا ادارہ آج بھی برائے نام عملے اور چند دفاتر کی شکل میں بزرگوں کی میراث کے طور پر سانس لے رہا ہے۔ 

قومی احتساب بیورو محتسبِ اعلی کے پوپلے ادارے کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے مگر اس کا بس بھی سیاستداں اور تاجر و صنعت کار و ریٹائرڈ افسروں پر ہی چلتا ہے این ایل سی کیس میں نیب نے جن ریٹائرڈ فوجی افسروں پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی انہیں گذشتہ چیف آف آرمی سٹاف کے دور میں کورٹ مارشل کے وعدے پر فوج میں دوبارہ بحال کر لیا گیا۔ کورٹ مارشل ہوا مگر سزا یہ ملی کہ یہ غلط بات ہے آئندہ ایسے مت کیجیو۔ فوج کہتی ہے کہ اسے کسی سویلین احتسابی ادارے کی حاجت نہیں اور اس کا اپنا اندرونی نظامِ احتساب آرمی ایکٹ کی شکل میں حاضر سروس جوانوں، افسروں اور غیر محبِ وطن سویلینز کی جزا و سزا کے لیے کافی ہے۔

رہی بات انٹیلی جینس ایجنسیوں کے احتساب کی تو پہلے یہ تو طے ہو کہ ان کا مینڈیٹ ، دائرہ کار اور کمان کس سے بالا اور کس کے تحت ہے ؟ ۔ ہر سال شق وار بحث کے بعد قومی بجٹ کی منظوری پارلیمنٹ دیتی ہے مگر دفاعی بجٹ کی مد میں محض دو سطور بجٹ تقریر میں شامل ہوتی ہیں یعنی ’اس سال کا دفاعی بجٹ تخمینہ اتنے ارب روپے ہے اللہ اللہ خیر صلی۔‘ کونسی بحث ، کون سی کٹوتی ؟ آج تک کوئی دفاعی سودا پارلیمنٹ تو کجا دفاعی امور سے متعلق پارلیمانی کمیٹی میں بھی زیرِ بحث نہیں آیا۔ عدلیہ کہتی ہے کہ اس کا اپنا نظامِ احتساب سپریم جوڈیشل کونسل کی شکل میں موجود ہے لہذا وہ باقیوں کا احتساب تو کر سکتی ہے مگر ججوں کا احتساب جج ہی کریں گے۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان ایک آئینی ادارہ اور ہر سرکاری محکمے کے آڈٹ کا مجاز ہے۔کبھی کسی نے سنا کہ عدلیہ اور فوج کے سال فلاں فلاں کی آڈٹ رپورٹ کچھ یوں ہے۔ چنانچہ جب فوج کا کوئی سربراہ یہ کہتا ہے کہ وہ بلا امتیاز احتساب کی حمایت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ ہر سیاستداں کا بلا امتیاز احتساب۔ ورنہ تو یہ بیان بھی دیا جا سکتا تھا کہ ’دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بدعنوانی ختم کیے بغیر ملکی امن و استحکام ممکن نہیں لہذا مسلح افواج اپنے سمیت ہر ادارے کے بلا امتیاز احتساب کی حمایت کرتی ہیں۔‘
ہو سکتا ہے جنرل راحیل شریف کے بیان کا بین السطور مطلب یہی ہو مگر بین السطور مطلب پوچھے کون؟

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

Post a Comment

0 Comments