Ticker

6/recent/ticker-posts

روشنیوں کا شہر یا اندھیروں کا مسکن

موسموں کی تبدیلی قدرت کا کرشمہ ہے۔ ہر موسم اپنے اندر بڑی جامعیت رکھتا
ہے۔ مگر گرمی شدت سے باہر ہوجائے تو آگ ہے اور آگ کو ٹھنڈا کرنا انسان کے بس سے باہر ہے۔ جون سخت گرمی کے لیے مشہور ہے۔ اﷲ خیر کرے۔ گزرا ہوا سال اسی مہینے قیامت دیکھی۔ افسوس ہمارے ملکی وسائل ہونے کے باوجود چند ڈکیت اشرافیہ کی حرکت کی وجہ سے لگ بھگ دو ہزار غریب انسان لقمہ اجل بن گئے، جس کا مجموعی طور پر ذمے دار کراچی الیکٹرک بھی تھا۔ کے الیکٹرک کی ظلم انگیز داستانیں جو تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ لوگ صرف لوڈشیڈنگ اور زائد بلنگ کا ہی واویلا کیو ں کرتے ہیں۔

اس ادارے میں موجود کالی بھیڑوں نے اووربلنگ کی انتہا کردی ہے، صارفین کی کثیر تعداد ایسی بھی ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے ادارے کے کارندوں کو مبینہ رشوت دے کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔ بجلی کے میٹر کی تنصیب ہو یا ایک سے زائد میٹر کی تنصیب کا معاملہ، خطیر رقوم کی ادائیگی کے بغیر ناممکن ہے۔ منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی قیمتی دستاویزات میں عمل دخل، بے پناہ وقت کا ضیاع، سروے کے بہانے گھروں میں گھس کر ناجائز زائد بلوں کی ترسیل ان کا سماجی کلچر بن چکا ہے۔
پانی، گیس، بجلی، صحت عامہ، سڑکوں محلوں کی صفائی و ستھرائی، کسی بھی جمہوری اور غیر جمہوری ریاست کے عوام کو غیر منافع بخش اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہر صورت فلاحی ترجیحی ہنگامی بنیادوں پر براہ راست جلد فراہمی فرائض منصبی میں شامل ہوتا ہے، خواہ ملک کے داخلی و خارجی حالات جیسے بھی ہوں۔ بصورت دیگر عدم فراہمی حکومتوں کے لیے کوئی حق نہیں کہ وہ عوام کے ساتھ کسی بھی قسم کا ناجائز سمجھوتہ کریں۔

ان اداروں کے ذریعے کسی بھی قسم کا منافع کمانا، لوٹ مار کرنا اسلامی اور اخلاقی زاویہ نگاہ سے کسی صورت جائز نہیں، بلکہ حقوق العباد کی ادائیگی کے ضمن میں گناہ عظیم ہے۔ ملک میں بڑے یا چھوٹے پیمانے پر ریاستی دہشت گردی ہو، کرپشن کا معاملہ ہو، اسمبلیوں، اعلیٰ عدالتوں میں اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان سیاسی محاذآرائی ہو، نیب کے معاملات ہوں، ورلڈبینک کے غیر مشروط قرضہ جات ہوں، پانامہ کے حوالے سے آف شور کمپنیوں کے ذریعے سرمائے کو ملٹی پلائی (Multiply) کرنا ہو، ان تمام معاملات سے نہ تو عام آدمی کو کوئی دلچسپی یا غرض ہے اور نہ ہی کسی قسم کا حاصل ہونے والا فائدہ۔ عام آدمی کو صرف ریاست سے ضرورت ہے، وہ ہے۔ بنیادی حقوق کی مد میں بجلی، پانی، گیس، صحت عامہ اور دیگر عوامی ضروریات کی بروقت غیر منافع بخش بلاتردد فراہمی۔
افسوس! حکومتی نمایندوں نے انھی اداروں کو اپنے منظوم کاروبار کی بھینٹ چڑھادیا اور انھی اداروں سے لوٹا ہوا سرمایہ بیرون ملک آف شور کمپنیوں میں جھونک دیا۔ یہ ملک ہی نہیں ہوگا تو بتاؤ تمہیں کون عزت کی نظر سے دیکھے گا۔ کون تمہیں اپنی سرزمین پر قدم رکھنے دے گا۔ کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ تم ڈاکو اور لٹیرے ہو۔ یاد رکھو! جو بوؤ گے وہی کاٹو گے، یہی فطرت کائنات ہے۔ گزشتہ دنوں کے الیکٹرک کی جانب سے ایک عوامی سروس پیغام ایس ایم ایس (SMS) چلایا ہے جو نہایت ہی مضحکہ خیز ہے۔ لکھتے ہیں ’’گرمی میں احتیاط کریں، بزرگوں اور بچوں کا خیال رکھیں اور پانی زیادہ استعمال کریں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا احتیاط کریں؟ کس طرح سے کریں؟ بزرگوں اور بچوں کا خیال کیسے رکھیں؟ تم ہی بتادو۔ جب شدید گرمی ہوگی تو اپنے ہی ہوش و حواس انسان کھو بیٹھتا ہے، ذہن ماؤف ہوجاتا ہے۔ ایسے میں اسے ٹھنڈک کی ضرورت ہوتی ہے۔ شہر میں درخت تو ہیں نہیں، پارک اجڑ چکے ہیں جو تھوڑے بہت تھے۔

اب رہ گئے پنکھے اور ائیرکنڈیشن جس کو چلانے کے لیے بجلی کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور بجلی کا نعم البدل ہی نہیں ہے۔ وہ آپ کو نہیں ملتی، اگر ملتی بھی ہے تو جیب افورڈ (Afford) نہیں کرتی۔ وہ بھی قلیل وولٹیج کے ساتھ اور پانچ یا چھ گھنٹوں کے وقفے کے بعد۔ یہی صورتحال بیمار و ناتواں، عمر رسیدہ بزرگوں اور معصوم بچوں کے ساتھ ہے۔ پھر فرماتے ہیں پانی زیادہ استعمال کر یں! پانی بھی تو بجلی ہی کا محتاج ہے۔ جب بجلی ہی ناپید ہوگی تو پانی کہاں سے آئے گا۔ شہر میں ٹیوب ویل، ہینڈ پمپ یا پانی کے کنویں تو ہیں نہیں کہ کنویں میں بالٹی کے ذریعے پانی نکالا جاسکے۔

کراچی الیکٹرک ایک خفیہ ہوائی گھوڑا ہے، جس کے اعلیٰ افسران کا کسی بھی عام آدمی کو نہ ہی پتا ہے نہ ہی اس کی ان تک رسائی۔ کمپنی کے مالکان کون ہیں؟ کمپنی کا مالک فرد واحد ہے یا کنسورشیم (Consortium) کی شکل میں اس کی ملکیت ہے۔ کسی کو کچھ نہیں پتا۔ ہاں البتہ شکایات کے جعلی ازالہ کے لیے شہر میں مکمل طور پر ائیر کنڈیشنڈ شکایتی ڈمی مراکز IBC کے نام سے قائم کیے گئے ہیں جن کا اندرونی حال احوال کچھ اس طرح ہے۔ جب آپ اندر داخل ہو تے ہیں تو نیلی وردی میں ملبوس کم اجرت سیکیورٹی گارڈ آپ کی اچھی طریقے سے جامہ تلاشی لے گا۔

ضرورت پڑنے پر آپ کا شناختی کارڈ طلب کرے گا اور رجسٹر میں آپ کے کوائف کا اندراج کرے گا۔ سیکیورٹی کا مرحلہ طے کرنے کے بعد قریب میں رکھی ہوئی ٹوکن ایشو مشین آپ کو نمبر کا اجرا کرے گی اور آپ وہاں پر لگی ہوئی خوبصورت اور آرام دہ کرسیوں پر براجمان ہوجائیں گے اور بیٹھے بیٹھے مرکز پر ہونے والے حال کا نظارہ بھی کرتے رہیں گے۔ خوبصورت اور دیدہ زیب اسٹائل میں بنے ہوئے کاؤنٹرز اور ان کے پیچھے بیٹھا ہوا کمپنی کا لاچار اور بے بس عملہ گلے میں شناختی کارڈ لٹکائے، کاؤنٹر پر نصب کمپیوٹر پر نگاہیں جمائے۔
اور دیکھئے ان کے پاس لمحہ بھر کے لیے اپنے سامنے کھڑے ہوئے ناراض صارف کی زیارت تک کا وقت نہیں۔

صارف چیختا چلاتا ہے، بعض سرپھرے صارف گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں۔ باوجود کوشش صارف بے بس واپس لوٹ جاتا ہے۔ فیڈرل گورنمنٹ کے زیر اثر ادارتی انصاف کی عدالت وفاقی محتسب عوام کو بلامعاوضے اداروں کی طرف سے ہونے والی زیادتیوں کے ازالے کے لیے تن من سے کوشاں ہیں۔ محتسب کے دفتر کے اعلامیہ کے مطابق اس وقت سب سے زیادہ شکایات کراچی الیکٹرک کی زائد بلنگ سے متعلق زیر سماعت ہیں، جن میں بیشتر کے فیصلے بھی صادر ہوچکے ہیں۔
گزشتہ دنوں بجلی کی پیداوار کے حوالے سے اہم اور دلچسپ خبر آئی ہے کہ جرمنی میں روایتی اور قابل تجدید ذرایع کے علاوہ ہوا اور شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار کے حجم میں 80 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو ملکی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔

اس زیادتی کی تحلیل حکومت کے لیے ایک مسئلہ بن گئی ہے۔ زیادتی کی بنیادی وجہ اس سال ہوا اور شمسی تناسب موازناتی طور پر زیادہ رہا جو مقدار میں اضافے کا سبب بنا۔ ادھر کوئلہ اور ایٹمی توانائی سے چلنے والے بجلی گھروں کی اضافی بجلی پیدا ہونے کے باوجود بند نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انھیں بند کرنے کے بعد دوبارہ Start کرنا محال ہے۔ زائد بجلی کی پیداوار کی کھپت کے لیے حکومت صارفین سے بل کی مد میں وصولی کے بجائے انھیں مزید رقم ادا کرنے پر مجبور ہے۔

قمر عباس نقوی

Post a Comment

0 Comments