Ticker

6/recent/ticker-posts

شطانیت اور رحمانیت دونوں عروج پر

کچھ عرصے سے کراچی کی شناخت بدامنی اور بد انتظامی بن چکی ہے لیکن ماضی میں اسی کراچی کو روشنیوں کا شہر، عروس البلاد اور غریب پرور شہر کے نام سے پکارا جاتا ہے، لیکن یہ شہر ایک حیرت کدہ بھی نظر آتا ہے۔ شہر پر منگل کی شب جب بادل برس رہے تھے تو ساڑہ آٹھ بجے کے قریب میں بائیک پر دفتر سے گھر کے لیے روانہ ہوا، شاہراہ فیصل پر پانی جمع ہونے کی وجہ سے گلیوں سے جانے کو ترجیج دی لیکن طارق روڈ کے قریب پانی کے بہاؤ کے سامنے بائیک نے مزید چلنے سے انکار کر دیا۔

ایک فٹ سے زائد پانی میں جب میں بائیک کو دھکیلتا ہوا چند قدم ہی آگے بڑھا تو سامنے چار نوجوان نظر آئے، جو بغیر کچھ بولے آگے بڑھے اور بائیک کو اٹھاکر فٹ پاتھ پر کھڑا کردیا اور ون وے پر لاکر خود ہی اس کا پلگ صاف کرنے لگے ، انھوں نے مجھے تسلی دی کہ پریشان نہ ہوں وہ ابھی بائیک ٹھیک کر دیں گے۔
جس شہر میں گن پوائنٹ پر لٹنے کے واقعات عام ہوں اور ٹارگٹڈ آپریشن بھی اس میں کمی نہیں لا سکا ہو اس صورتحال میں اگر آپ چار نوجوانوں کے درمیان میں ہوں تو ڈر و خوف طاری ہونا قدرتی امر ہے۔ میں بھی تھوڑا گھبرایا ضرور لیکن چند منٹوں بعد میر اعتماد بحال ہوگیا۔
ان نوجوانوں نے اپنے طور پر پوری کوشش کی لیکن بائیک ٹس سے مس نہیں ہوئی، میں ان نوجوانوں کے شکریہ کے ساتھ پھر بائیک کو دھکیلتا آگے بڑھا، آگے چوک پر کئی لوگ خراب بائیکوں کے ساتھ موجود تھے لیکن ہر بائیک کے قریب ایک نوجوان بھی نظر آتا جو اس کی مرمت میں مصروف تھا۔ یہ کراچی کی ایک بلکل مختلف پہچان تھی جس کا مجھے پہلے تجربہ نہ تھا۔ اس بھیڑ سے جیسے آگے پہنچا تو ایک بائیک پر نوجوان آکر رکا اور مشورہ دیا کہ دھکے سے گاڑی اسٹارٹ ہو جائیگی جس کے بعد اس نے ایک پاؤں میری بائیک پر رکھا اور سپیڈ سے اپنی بائیک چلائی مگر کوئی کامیابی نہیں ہوئی جس کے بعد میں نے اس کو جانے کے لیے کہا۔
 
اس طرح کئی لوگ راستے میں رکتے اور مدد کی پیشکش کرتے رہے بالاخر دو نوجوانوں کی محنت رنگ لائی اور میری بائیک اسٹارٹ ہوگئی میں گھر کی طرف روانہ ہوا۔ یقیناً باقی لوگ بھی ان مددگاروں کی محنت سے گھر پہنچے ہوں گے اور میری طرح انھیں بھی پریشان حال اہل خانہ کے مسلسل فون آ رہے ہوں گے۔
کراچی کے بارے میں نامور سماجی رضاکار عبدالستار ایدھی کا کہنا ہے کہ یہ تقسیم کا شہر ہے، یہاں ہر چیز تقسیم ہو چکی ہے، میں نے بھی اس شہر میں دس سال کی صحافت کے دوران لسانی اور فرقہ ورانہ تقسیم دیکھی ہے، کہیں فرقہ تو کہیں زبان و نسل خطرہ بن جاتی ہے، اس صورتحال میں صحافت بھی صرف مخصوص علاقوں تک محدود ہے۔

اس شہر میں پریشانی و خوف کی وجہ سے اگر کسی کو نیند نہ آئے تو دوسری بات ہے لیکن یہاں کم از کم کوئی بھوک کی وجہ سے نہیں جاگتا، ہر علاقے میں ایسے دستر خوان اور ہوٹل موجود ہیں جہاں غریبوں اور فقیروں کو دو وقت کا کھانا دستیاب ہوتا ہے، یہاں کوئی کسی سے فرقہ یا زبان کا سوال نہیں کرتا ہے۔
شہر کی ہول سیل مارکیٹوں میں سیٹھ ایک روپیہ رعایت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے لیکن ماہ رمضان میں یہ ہی سیٹھ ہزاروں لوگوں میں مفت راشن تقسیم کرتے ہیں۔
 
یہاں کچھ لوگ کسی تنازعے یا اختلاف پر قتل کرکے لاش سڑک پر پھینک دیتے ہیں اور اسی شہر کا عبدالستار ایدھی کسی تفریق سے بالاتر ہوکر ان لاشوں کو غسل و کفن کے بعد دفن کر دیتا ہے۔ یہاں گرفتار ہونے والے بعض شدت پسندوں کی جیب سے نکلنے والی ہٹ لسٹ میں ڈاکٹر ادیب رضوی کا نام بھی شامل ہوتا ہے لیکن یہ ہی ادیب رضوی شیعہ اور سنی دونوں کے گردوں کا علاج ایک ہی جذبے کے ساتھ کرتے ہیں۔ ایک ساتھی کے چچا کے بقول کراچی میں شیطانیت اور رحمانیت دونوں ہی اپنے عروج پر ہے۔ یہاں سیاہ اور سفید دونوں کے مزاج کا امتزاج موجود ہے۔

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

Post a Comment

0 Comments