Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی آپریشن ۔ ناکامی کا کوئی آپشن نہیں

قومی قیادت نے ایک بار پھر یہ عزم دہرایا ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو ہر صورت ختم کیا جائے گا۔ کراچی میں دو بڑے واقعات کے بعد جنرل راحیل شریف اور وزیر داخلہ سمیت سندھ کے بڑے سر جوڑ کے بیٹھے اور اس بات پر اتفاق رائے ظاہر کیا کہ دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ ہر چار چھ مہینے کے بعد قومی قیادت کو یہ عزم ظاہر کرنے کی ضرورت پیش آ جاتی ہے، کیونکہ دہشت گردوں کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ انہیں کاٹنا آسان نہیں۔ سالہا سال کی لگی ہوئی دیمک ہمارے نظام کو بھی اندر سے کھوکھلا کر چکی ہے اور اس نے اپنی جڑیں بھی دور تک پھیلائی ہوئی ہیں۔ مَیں ان لوگوں کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا، جو ایک یا دو بڑے واقعات کی بنیاد پر یہ بیان جاری کر دیتے ہیں کہ آپریشن ناکام ہو گیا ہے۔ ایسے واقعات ایک تاثر ضرور پھیلاتے ہیں، مگر حقیقتاً ان سے آپریشن کی ناکامی ظاہر نہیں ہوتی۔ کراچی میں امجد صابری کا قتل اور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کا اغوا یقینا بڑے واقعات ہیں، مگر یکدم یہ بیان جاری کر دینا کہ ان کی وجہ سے کراچی آپریشن پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ ان کامیابیوں اور قربانیوں کو جھٹلانے کی کوشش ہے،جو اب تک اس ضمن میں حاصل یا دی جا چکی ہیں۔

آپریشن ضربِ عضب کی کامیابیوں کو دُنیا نے تسلیم کیا ہے۔ دہشت گردوں کا وہ نیٹ ورک جو پاکستان میں دہشت کی متوازی حکومت چلا رہا تھا، اب ختم ہو چکا ہے جو ٹوٹا پھوٹا نیٹ ورک موجود ہے، اسے خود کو زندہ رکھنے کے لئے بہت تگ و دو کرنی پڑ رہی ہے۔ انٹیلی جنس کے بہتر استعمال سے آئے روز دہشت گردوں کے پکڑے جانے کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ افغانستان سے آنے والے راستوں کو محفوظ بنا لیا گیا ہے۔ وہ فری آمد و رفت جو دہشت گردوں کو کمک پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ تھی، ختم کر دی گئی ہے۔ اس پر افغانستان کی طرف سے جو رد عمل دیکھنے میں آیا وہ بھی حیران کن ہے، حالانکہ امن کی خاطر اس کی حمایت کی جانی چاہئے تھی، گویا ایک بہتر سمت میں کام ہو رہا ہے۔ ایسے میں صرف کراچی کو ہائی پروفائل شخصیات کو ہدف بنانے کے واقعات معنی خیز ہیں انہیں بہت گہرائی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
کراچی آپریشن کو کسی صورت بھی ناکام نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم یہ بھی صحیح ہے کہ ابھی کراچی میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا شہر جہاں لاقانونیت کو ایک طرزِ زندگی بنا لیا گیا تھا اور جہاں مختلف گروہوں نے شہر کے علاقے بانٹ کر وہاں اپنی ریاستیں قائم کر لی تھیں، اب ایک کھلے شہر کے طور پر موجود ہے۔ اکا دکا علاقوں کے سوا پورے کراچی پر قانون کی عملداری قائم ہوتی نظر آتی ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم ابھی تک خود کو قانون شکنوں اور دہشت گردوں سے علیحدہ کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی وجہ سے بہت سے ابہام پیدا ہوتے ہیں اور کچھ دوسرے گروہ بھی فائدہ اٹھا جاتے ہیں مثلاً امجد صابری کے قتل کا سانحہ ہوا تو سب سے پہلے ایم کیو ایم نے ہی کراچی آپریشن پر سوال اُٹھایا اور یہ منطق نکالی کہ آپریشن چونکہ صرف ایم کیو ایم کے خلاف ہو رہا ہے، اِس لئے دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں، جنہوں نے امجد صابری کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

آخر اِس طرح کی منطق ڈھونڈنے کی کیا ضرورت تھی؟ سیدھی طرح اس قتل کی مذمت کر کے کراچی آپریشن کو جاری رکھنے کی بات بھی تو کی جا سکتی تھی۔ فاروق ستار نے تو واردات کے اگلے چند منٹوں میں یہ الزام بھی لگا دیا کہ امجد صابری کو ایم کیو ایم چھوڑنے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں اور پی ایس پی والے انہیں اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتے تھے۔ بعد ازاں اس بات کی امجد صابری کے اہل خانہ نے تردید کر دی۔ ایم کیو ایم جتنی مشکلات میں گھری ہوئی ہے اُسے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہئے، مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ اُس کی قیادت جلد بازی کا شکار ہے اور اِسی جلد بازی کی وجہ سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں، جس دن آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے رینجرز ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور واشگاف الفاظ میں یہ عزم دہرایا کہ کراچی آپریشن اہداف کے حصول تک جاری رہے گا، اُسی دن ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے رات کے ٹی وی ٹاک شوز میں غیر مشروط طور پر کراچی آپریشن کی حمایت کرنے کے دعوے کئے۔ ایک قومی مسئلے پر بات بے بات موقف کی تبدیلی کیسے ملکی مفاد میں ہو سکتی ہے؟

اس تاثر کو بھی اب دور ہونا چاہئے کہ رینجرز اور سندھ حکومت میں اشتراک عمل موجود نہیں، اگر یہ دوئی رہتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سندھ حکومت کا ذیلی ادارہ، یعنی پولیس بھی رینجرز سے تعاون نہیں کرے گا، اس کا دہشت گردوں کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے یا پہنچ رہا ہے، اس پر کوئی دلیل دینے کی چنداں ضرورت نہیں۔ سندھ پولیس کی قربانیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ نصیر اللہ بابر دور کے پولیس افسروں اور جوانوں کو جس طرح چُن چُن کر کراچی میں قتل کیا گیا اس کی کہانی بھی کچھ زیادہ پرانی نہیں، اب بھی دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے بے شمار پولیس والے جاں بحق ہوئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ان قربانیوں کی وجہ سے پولیس کی قدرو منزلت بڑھنی چاہئے تھی، پھر کم کیوں ہو گئی ہے۔

کیوں یہ کہا جا رہا ہے کہ سندھ پولیس دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے پر قادر نہیں، یا یہ تاثر کیوں پایا جاتا ہے کہ رینجرز دہشت گرد پکڑ کر پولیس کے حوالے کرتی ہے اور پولیس انہیں کمزور مقدمات بنا کر چھوڑ دیتی ہے۔ یہ اشتراکِ عمل کا شدید فقدان ہے، جسے ختم ہونا چاہئے، صرف یہی نہیں کہ کسی بڑے واقعہ کے بعد جو بڑوں کی میٹنگ ہو، اُسی میں ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ اکٹھے بیٹھیں، بلکہ اُن کے درمیان اداروں کی سطح پر اس قدر موثر رابطہ ہونا چاہئے کہ دہشت گردوں کو فرار کی جگہ نہ ملے۔ حالیہ واقعات کے بعد سندھ میں جو ہلچل مچی ہے اور جس طرح ریاست کے بڑے بیٹھے ہیں، اُس سے جو فیصلے سامنے آئے ہیں وہ اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں، یعنی پولیس میں20 ہزار نئی بھرتیاں، جدید آلات کی فراہمی اور دیگر سہولتیں، مگر ان سب کے ساتھ ساتھ ایک مشترکہ نصب العین بھی ضروری ہے۔ 

سندھ حکومت یا رینجرز کے درمیان یہ کوئی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی جنگ نہیں ہے، بلکہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہے کہ صوبے خصوصاً کراچی میں امن و امان قائم کرنا ہے، نیتوں پر شبہ کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہونا چاہئے اور ایم کیو ایم کی طرح سندھ کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی بھی یہ حوصلہ پیدا کرے کہ مجرم کو مجرم کہہ سکے چاہے وہ اس کی صفوں میں ہی کیوں موجود نہ ہو۔ صرف ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کو بنیاد بنا کر پیپلزپارٹی نے رینجرز کے خلاف جو عدم تعاون کی فضا بنا رکھی ہے، اُسے ختم ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کی جنگ عدالتوں میں لڑی جا رہی ہے اگر وہ بے گناہ ہوں گے تو رہا ہو جائیں گے۔ صرف انہیں ریلیف دینے کے لئے اگر رینجرز کو دیوار کے ساتھ لگانے کی پالیسی روا رکھی گئی ہے اور کراچی آپریشن کو بے دلی کے ساتھ پر کاٹ کے چلانے کی غیر اعلانیہ حکمتِ عملی بروئے کار لائی گئی ہے تو یہ مُلک و قوم کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ خود پیپلزپارٹی کو بھی حالیہ دو واقعات سے اندازہ ہو گیا ہو گا کہ جب بُری حکمرانی کی بات ہوتی ہے تو نزلہ کسی اور پر نہیں سندھ کی شاہ حکومت پر ہی گرتا ہے۔

کراچی کے بارے میں ہمیں سوائے رجائیت کے اور کوئی نظریہ نہیں اپنانا چاہئے، کیونکہ کراچی آپریشن میں کامیابی کے سوا ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن موجود ہی نہیں۔ کراچی کا امن پاکستان کی شہ رگ کو بچانے کے مترادف ہے۔ اس حوالے سے کوئی سیاست نہیں ہونی چاہئے۔ امجد صابری کے قتل اور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے اویس شاہ کے اغوا پر پوری ریاستی مشینری جس شد و مد سے کام کر رہی ہے، اس کے نتائج یقیناجلد سامنے آئیں گے اور یہ عقدہ بھی حل ہو جائے گا کہ ایک ایسے وقت میں جب کراچی کا امن ایک بڑی حقیقت بن کر سامنے آ رہا تھا، اسے تہہ بالا کرنے کی سازش کس نے کی۔ یہ واقعات کراچی آپریشن پر سوالیہ نشان نہیں چھوڑ گئے، بلکہ یہ پیغام دے گئے ہیں کہ اب اگر اِس ضمن میں مزید غفلت برتی گئی تو وہ قوتیں جو اس شہر کو بیروت بنانا چاہتی ہیں، پھر سے منظم ہو جائیں گی اور ہمیں ان کے خلاف نئے سرے سے ایک بڑی جنگ لڑنی پڑے گی۔ اِس لئے اس زخمی سانپ کو ابھی پوری طاقت سے کچلنے کی ضرورت ہے۔

نسیم شاہد

Post a Comment

0 Comments