کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کا شمار دنیا کے بیس بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ یہ شہر پاکستان کے صوبہ سندھ کا دارالحکومت بھی ہے۔ یہاں کی سمندری بندرگاہ بہت اہمیت کی حامل ہے، جس کے ذریعے پاکستان کا رابطہ تجارت کے سلسلے میں دوسرے ملکوں سے قائم ہے۔ یہاں ماہی گیری کی صنعت کی وجہ سے ماہی گیروں کی بستیاں زمانہ ء قدیم سے آباد ہیں۔ عربوں میں یہ شہر دیبل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یونانی لوگ اس شہر کو ’’کرو کولا‘‘ کے نام سے پکارتے تھے، جبکہ قدیم زمانے میں یہ شہر ’’کولاچی‘‘ کہلاتا تھا۔ اور پھر یہی نام بگڑ کر ’’کراچی‘‘ بن گیا۔ 1840ء میں اسے سندھ کا دارالحکومت قرار دیا گیا۔ قیام پاکستان سے قبل یہ بمبئی کا حصہ تھا اور اب یہ پاکستان کا سب سے زیادہ گنجان آباد شہر ہے۔ 1960ء میں دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہو گیا۔ سیاست میں کراچی کو ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے، کیونکہ ہمارے عظیم قائد محمد علی جناحؒ بھی 1876ء میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ اور ستمبر 1948ء سے اسی شہر میں پیوندِ خاک ہیں، جن کے مزار پر آپ کے چاہنے والوں کا ہجوم رہتا ہے۔ لوگ جوق درجوق اپنے عظیم قائد کو سلامِ عقیدت پیش کرنے کے لئے آتے رہتے ہیں۔
یہ شہر ایک کثیر آبادی کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں کے بازار پُررونق ہیں۔ کراچی چونکہ ایک بڑا ثقافتی مرکز ہے، لہٰذا یہاں کے بازاروں میں آپ کو ہاتھ سے بنی رَلیاں اور اجرک، شیشے کے کام سے آراستہ خواتین کے ملبوسات، سندھی شیشوں کے کام والی ٹوپیاں جگہ جگہ نظر آتی ہیں، جو کہ بیرون ممالک میں بھی بے حد پسند کی جاتی ہیں۔ ساحلِ سمندر کی سیر پر آنے والے لوگ یہ نادر اور قیمتی اشیاء اپنے ہمراہ لے کر جاتے ہیں۔ یہاں پر جولائی اور اگست میں موسم برسات شروع ہو جاتا ہے۔ کافی عرصہ پہلے یہاں اتنی زیادہ بارشیں نہیں ہوتی تھیں، لیکن عالمی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے کچھ برسوں سے یہاں بارشوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ بارش کے بعد یہاں کے گلی کوچوں میں، مناسب نکاسی ء آب نہ ہونے کی وجہ سے،پانی بھر جاتا ہے، جس سے کراچی کے شہریوں کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ یہاں بڑے بڑے شاپنگ مالز، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر اور بہت سارے میڈیا گروپ بھی سرگرم عمل ہیں۔
اس شہر میں روزانہ ایک درجن سے زائد، چھوٹے بڑے،اخبارات بھی شائع ہوتے ہیں۔ ہفت روزہ اور پندرہ روزہ رسائل اس کے علاوہ ہیں۔ اس سرزمین میں بہت سے جید علماء، مفتی، عظیم شاعر اور دانش ور بھی پیدا ہوئے۔ جن میں سیاست کے مشہور زمانہ جناب ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، محترمہ فاطمہ جناح اور دیگر سیاستدانوں کا تعلق بھی اسی شہر کراچی سے رہا۔ یہاں پر لوگوں کی رہائش کے لئے فلیٹ سسٹم کو متعارف کرایا گیا۔ جب کبھی یہاں کی آبادی کم تھی تو یہی فلیٹ کراچی کی خوبصورتی کاباعث تھے۔ جوں جوں آبادی بڑھتی گئی۔ اس آبادی کی زندگی مشکلات میں گھرتی چلی گئی۔ اور اب یہ عالم ہے کہ کراچی کے یہی فلیٹ زندگی کی تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ یہاں پر پانی کی عدم موجودگی کا ہے۔ ان فلیٹوں میں پانی اکثر اوقات ہفتہ ہفتہ بھریا دو،دو ہفتے تک غائب رہتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کی صورت میں ہے۔ جہاں اکثر جگہوں پر بجلی کئی کئی گھنٹوں تک غائب رہتی ہے، جس کی وجہ سے کاروبار زندگی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ جو اب اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس شہر میں سڑکوں پر اکثر ٹریفک جام رہتا ہے، جس کی وجہ سے طالب علموں کو اپنی اپنی درس گاہوں میں پہنچنے میں تاخیر و پریشانی ہوتی ہے۔ تو دوسری طرف دفاتر جانے والے بھی اپنے اپنے دفاتر میں وقت پر نہیں پہنچ پاتے۔ سڑکوں کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔ جگہ جگہ گڑھے پڑے ہوئے ہیں۔ بقول دلاورفگار (مرحوم):
یہ جو سرِ راہ گڑھوں کی فراوانی ہے
مرنے والوں کے لئے دفن کی آسانی ہے
سڑکوں کے کنارے جگہ جگہ کوڑا کرکٹ اور غلاظت کے ڈھیر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سڑکوں پر اُڑتے پھرتے شاپنگ بیگ بھی طبعء نازک پر گراں گزرتے ہیں اور زبانِ حال سے حکومتِ وقت کی کارکردگی پر شکوہ کُناں نظر آتے ہیں ۔ یہ ہے پاکستان کا سب سے قدیم اور عظیم شہر!
پچھلے دنوں میں کراچی میں تھی۔ مجھے ایک ٹیلر کے پاس جانا تھا۔میں جب وہاں سے واپس آ رہی تھی تو مجھے اپنے پیچھے کسی کے چلنے کی آہٹ محسوس ہوئی۔ پلٹ کر دیکھا تو ایک بچہ، جو روزانہ کوڑا اٹھانے ہمارے گھر آتا تھا، تیز دھوپ میں جلتی سڑک پر ننگے پاؤں میرے پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔ میں چلتے چلتے رُک گئی۔ میں نے پوچھا: ’’تم نے جوتے کیوں نہیں پہنے‘‘۔ وہ خاموش رہا۔میں نے پھر پوچھا تو وہ پھر بھی چُپ رہا۔ مَیں سمجھ گئی کہ اسے میری بات سمجھ نہیں آ رہی۔ شاید وہ صرف سندھی ہی جانتا تھا۔ میں نے اپنے پاؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے دوبارہ کہا’’جوتے پہنو گے‘‘ وہ میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا میں نے گھرپہنچ کر اپنے جوتے اتار کر اسے دے دیئے۔ میں نے اس سے کہا کہ ’’تم نے یہ جوتے صبح پہن کر آنے ہیں‘‘ وہ جوتے لے کر چلا گیا۔ میری بیٹی جو پاس ہی کھڑی ہوئی تھی کہنے لگی۔۔۔’’دیکھئے گا یہ جوتے نہیں پہنے گا‘‘۔
میں تو یہ واقعہ بھول جاتی۔ لیکن میں جب کراچی سے بذریعہ ٹرین لاہور واپس آ رہی تھی تو میرے سامنے والی سیٹ پر ایک بزرگ اور ایک تعلیم یافتہ نوجوان بیٹھا ہوا تھا۔ وہ بزرگوار سے سندھ کے وڈیرہ کلچر کے حوالے سے گفتگو کر رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا: ’’انکل میں نے سندھ کے کلچر کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ یہ وڈیرہ کلچر کسی کو بھی پھولنے اور پھلنے نہیں دے گا۔ یہاں کے رواج کے مطابق غریب ہاری پاؤں میں جوتا نہیں پہن سکتا‘‘۔ بزرگ نے پوچھا ’’وہ کس لئے!‘‘ وہ جوان کہنے لگا۔ ’’ یہ وڈیرے لوگ کہتے ہیں کہ ہاری لوگ جوتا پہننے سے آرام طلب ہو جاتے ہیں۔ نوجوان کی یہ بات جیسے ہی میرے کان میں پڑی۔ مجھے اپنی بیٹی کے کہے الفاظ یاد آ گئے۔’’یہ جوتا نہیں پہنے گا‘‘ اور میں سوچنے لگی کہ جو لوگ ایک غریب انسان کو جوتا پہننے جیسی ’’عیاشی‘‘ نہیں کرنے دیتے۔ وہ انہیں بجلی، پانی، گیس، تعلیم اور صحت جیسی سہولیات کیونکہ فراہم کر سکتے ہیں؟
عفت امتیاز
0 Comments