لیاری میں ایک گینگسٹر نور محمد عرف بابا لاڈلہ کی ہلاکت کے بعد لیاری میں مستقل امن قائم ہو جائے گا ؟ مگر لیاری کے حالات سے واقفیت رکھنے والے اس بارے میں مایوسی کا شکار ہیں۔ میڈیا کے مطابق بابا لاڈلہ 2 فروری کو رینجرزکے چاق وچوبند دستے سے مقابلے میں ہلاک ہوا،ایک بڑے گینگسٹرکی ہلاکت سے لیاری کے لوگوں کوسکون میسر ہوا، بابا لاڈلہ کا تعلق عذیر بلوچ گروپ سے ہے۔
عذیر بلوچ گزشتہ سال دبئی میں گرفتار ہوئے تھے۔ عذیر بلوچ کی حراست کے دوران ویڈیوزکا ذرایع ابلاغ پر ذکر ہوتا رہا، پھر یہ معاملہ پس پشت چلا گیا۔ عذیر بلوچ اور بابا لاڈلہ کے خلاف ایک اور گینگسٹر ارشد پپوکے قتل سمیت سیکڑوں مقدمات درج تھے۔ بابا لاڈلہ کالعدم پیپلزامن کمیٹی کے عسکری ونگ کا انچارج کہلایا جاتا تھا۔ عذیر بلوچ، رحمن بلوچ کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد اپنے گینگ کا سربراہ بنا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ 2003ء میں عذیر بلوچ کے والد فیض بلوچ عرف ماما فیضو کو ارشد پپو نے قتل کرایا تھا۔عذیر بلوچ انتقام کے لیے رحمن ڈکیت کے گروپ میں شامل ہوا تھا۔ جب 2007ء میں پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو شہید کراچی پہنچی تھیں تو رحمن بلوچ اور ان کے کمانڈوز نے انھیں سیکیورٹی فراہم کی تھی مگر پھر لیاری میں گینگ وار میں شدت کے بعد رحمن بلوچ لاپتہ ہوگیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ رحمن بلوچ کی کوئٹہ میں گرفتاری کی خبریں اخبارات کی شہ سرخیاں بنیں مگر وہ پھرکراچی میں منظر عام پرآ گیا تھا۔ بعد میں ایس ایس پی چوہدری اسلم کی سربراہی میں پولیس دستے اور رحمن بلوچ کے درمیان مبینہ پولیس مقابلے میں رحمن اور اس کے کئی ساتھی ہلاک ہوئے تھے مگر رحمن بلوچ کی ہلاکت کے بعد لیاری میں گینگ وار جاری رہی، اور ایک ایسا وقت آیا تھا کہ لیاری پر ان عناصر کا قبضہ ہوگیا تھا۔
لیاری پاکستان کی وہ بستی ہے جہاں کے لوگوں کا سیاسی شعور سب سے زیادہ بلند ہے۔ لیاری نے ملک میں چلنے والی جمہوری تحریکوں اورخاص طور پر بلوچستان میں چلنے والی تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 20 ویں صدی کی ابتدائی دھائیوں میں لیاری کانگریس کا مضبوط گڑھ تھا۔ لیاری میں قائم کھڈا مدرسہ کے اکابرین نے انگریز مخالف تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مولانا عبیداﷲ سندھی کی ریشمی رومال تحریک میں کھڈا مدرسہ کا اہم کردار رہا۔ اسی طرح بلوچ سردار نور الدین مینگل کی انگریزوں کے خلاف مزاحمی تحریک کی حمایت بھی کھڈا مدرسہ کے اکابرین نے کی تھی، اس کے بعد لیاری مسلم لیگ کی تحریک کا مرکز بن گیا۔ جب ایوب خان کے دور میں ریاست قلات پر فوجی آپریشن ہوا۔ سردار نوروز خان نے فوجی آپریشن کے خلاف بغاوت کی اور بعد میں فوجی حکام نے نوروز خان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبورکیا تھا۔ نوروزخان،اس کے بیٹے اور بھتیجوں کو سزائے موت دی گئی۔ نوروزخان کی بیماری کی بناء پر اس کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کی گئی اور بیٹے اوربھتیجوں کو پھانسی دی گئی۔
اس صورتحال میں لیاری غم وغصے کی لہر میں ڈوب گیا تھا۔ لیاری کے لوگوں نے سابق صدرایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کرکے حکومت کے خلاف اپنی نفرت کا اظہارکیا تھا اور قومی اسمبلی کے انتخاب میں عبدالباقی بلوچ کی حمایت کی تھی۔ صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں لیاری والے ایوب مسلم لیگ کے امیدوار حبیب اﷲ پراچہ کے مقابلے میں میر غوث بخش بزنجو کی قیادت میں متحد ہوگئے تھے اور میر بزنجو ضمنی انتخاب میں کامیاب ہوئے تھے۔ لیاری کے عوام نے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حمایت کی مگر جب 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو برطرف کیا اور بلوچستان میں فوجی آپریشن ہوا تو لیاری کی راہداریوں پر بلوچ مزاحمتی تحریک سے یکجہتی کے نعرے نظر آنے لگے۔ جب جنرل ضیاء نے پہلے منتخب وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تو لیاری کے ہرگھر میں مہینوں سوگ منایا گیا۔ لیاری سے تعلق رکھنے والے لاتعداد سیاسی کارکن پابند سلاسل ہوئے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔
1983ء کی ایم آر ڈی کی تحریک میں جب نیشنل پارٹی کے سربراہ میرغوث بخش بزنجو آٹھ چوک پرگرفتاری دینے کے لیے آئے تو پولیس نے ہجوم کو منتشرکرنے کے لیے آنسوگیس کے اتنے گولے پھینکے کہ اطراف کے گھروں تک میں سانس لینا مشکل ہو گیا۔ بی بی سی کے مارک ٹیلی ان دنوں لیاری میں رپورٹنگ پر مامور تھے۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں بلوچستان میں صورتحال بگڑنا شروع ہوئی۔ جسٹس مری کے قتل کے الزام میں مری قبیلہ کے سربراہ سردارخیر بخش مری گرفتار ہوئے اور بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ مری قبیلے سے تعلق رکھنے والے کئی سیاسی کارکن بھی اس لہر میں لاپتہ ہوئے۔
سردار خیر بخش مری اورسردار اکبر بگٹی اوروفاقی حکومت کے مابین کشیدگی کا آغاز ہوا۔ یہی وہ وقت تھا کہ لیاری میں جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیاں تیز ہو گئیں۔ لیاری میں سیاسی کارکنوں کو ہراساں کرنے اوران کی پرامن سرگرمیوں کو روکنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ سینئر کارکن گھروں میں مقید ہو گئے اور بعض لیاری چھوڑ گئے۔ جرائم پیشہ گروہوں کو اسلحے کی فراہمی شروع ہو گئی۔ ان جرائم پیشہ گینگسٹروں نے لیاری کے مختلف علاقوں میں اپنی کمین گاہیں قائم کر لیں۔
بلوچستان میں آپریشن میں شدت کے ساتھ ہی لیاری بھی گینگ وار کا شکار ہو گیا۔ پیپلز پارٹی جو لیاری کی حقیقی وارث تھی اس کے رہنماؤں نے جرائم پیشہ افراد کے خلاف جدوجہد کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا۔ پیپلزپارٹی کی چوتھی حکومت میں صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹرذوالفقار مرزا نے ایم کیو ایم کو شکست دینے کے لیے پیپلز امن کمیٹی قائم کی۔ پیپلز امن کمیٹی نے ایم کیو ایم سے جنگ کو شہر بھر میں پھیلا دیا اورایک نیا لسانی تضاد ابھر کر سامنے آیا۔
سابق صدرآصف زرداری نے نئے لسانی تضاد کو روکنے کی کوشش کی مگر پیپلز پارٹی میں سیاسی کلچر نہ ہونے کی بناء پر اپنے شریک چیئرپرسن کی بصیرت افروز بات کو کارکن سمجھ نہ پائے۔ اس نئے لسانی تضاد کا شکار کئی بے گناہ ہوئے۔ لیاری کی گینگ وار کا سب سے زیادہ لیاری والوں کو ہی نقصان ہوا۔ روزانہ 10 سے 12 افراد کی ہلاکت نے ترقی کے عمل کو روک دیا۔ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشتگردوں کے حملے کے بعد آپریشن ضربِ غصب شروع ہوا۔ کراچی میں بھی اس آپریشن کا دائرہ وسیع ہوا۔ لیاری میں گینگسٹر پولیس اور رینجرز کے مقابلوں میں مارے جانے لگے۔ عذیر بلوچ گرفتار ہوا، بابا لاڈلہ کی پاک افغان سرحد پر ہلاکت کی خبریں بار بار آئیں، مجموعی طور پر لیاری میں حالات بہت بہتر ہوئے۔ لوگ اب رات گئے لیاری آنے اور جانے لگے مگر پھر بھی مختلف گینگسٹرزکے درمیان جھڑپوں اور نوجوانوں کی ہلاکتوں کی خبریں آنے لگیں۔
اس صورتحال میں یہ سوال ابھر کر سامنے آیا کہ لیاری کو فراہم کی جانے والی اسلحے کی سپلائی لائن کیوں کٹ نہ سکی؟ جرائم پیشہ افراد کو منشیات کہاں سے ملنے کا سلسلہ برقرار رہا؟ یہ خبریں بھی آئیں کہ بااختیار اتھارٹی نے بعض گروہوں کو انھیں غیرقانونی سرگرمیوں کی اجازت دی ہے، یوں 5 میل کے دائرے میں محیط آبادی والے علاقے کے راستے بند نہ ہوئے اور اس کا فائدہ جرائم پیشہ افراد کو ہوا۔ لیاری میں جرائم میں ملوث افراد میں سے بیشتر نوجوان ہیں۔ ان میں سے اکثر کی عمریں 25 سال سے کم ہیں۔ یہ نوجوان مختلف وجوہات کی بناء پر جرائم کی دنیا میں شامل ہوئے۔ جو نوجوان پولیس مقابلوں میں بچ گئے یا پولیس کے ہاتھوں گرفتار نہیں ہوئے ان کی تعلیم وتربیت اور مہذب معاشرے میں ان کی شمولیت کا کوئی منصوبہ شروع ہونا چاہیے تا کہ مستقبل میں یہ لوگ کسی مجرم کے پیروکار نہ بنیں۔
کچھ صحافیوں کا خیال ہے کہ مقتدرہ مجرمانہ ماضی رکھنے والے بعض افراد کو 2018ء کے انتخابات میں کوئی کردار دے گی۔ بیشتر سیاسی کارکن یہ رائے ظاہرکررہے ہیں کہ لیاری میں پائیدار امن کے لیے بلوچستان میں مستقل امن ضروری ہے۔ بہرحال صرف چند گینگسٹرز کی ہلاکتوں سے لیاری میں مستقبل امن قائم نہیں ہوگا۔ لیاری اور پورے کراچی میں مستقل امن کے لیے ضروری ہے کہ شہر کواسلحے سے پاک کیا جائے، بیروزگاری ختم کی جائے، عدالتی نظام کو بہتر بنایا جائے، گواہوں کے تحفظ کا قانون بنایا جائے اور نوجوانوں کے ذہنوں کی تبدیلی کے لیے قانون کی حکمرانی کی اہمیت کو ہر سطح پر اجاگر کرنے کے لیے لائحہ عمل تیارکیا جانا بھی اشد ضروری ہے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان
0 Comments