Ticker

6/recent/ticker-posts

اب کراچی وہ نہیں رہا

شہر لوگوں سے ہوتا ہے اور شہر لوگوں میں یوں رچ بس جاتا ہے کہ شہر چھوٹ بھی جائے تو یادوں میں زندہ رہتا ہے۔ میں برطانیہ میں رہتا ہوں اور کبھی پاکستان میں مقیم دوستوں سے بات ہوتی ہے تو ایک جملہ اکثر دہرایا جاتا ہے، ’اب کراچی وہ نہیں رہا‘۔ ویسے یہ جملہ ایک عمر کے بعد کراچی کیا ہر چیز پر فٹ کیا جا سکتا ہے۔ البتہ کراچی کے بارے میں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ یقیناً صورتحال سنگین ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک تقریب ’ری وائیونگ کراچی ڈنر‘ میں سابق کرکٹر شاہد آفریدی کی تقریر سننے کا اتفاق ہوا۔ شاہد آفریدی کراچی کے رہنے والے ہیں یہ بات سب جانتے ہیں۔ اِس تقریب میں شاہد کراچی کے بارے میں کراچی ہی سے تعلق رکھنے والی نمائندہ جماعتوں کے بڑے لیڈران کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔

شاہد آفریدی کی آواز میں ایک مایوسی تھی ایک کرب تھا، لگ رہا تھا کہ حالیہ بارشوں میں آنے والی بڑی عید انھوں نے کراچی میں گزاری ہے۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہہ دیں کہ کیا ’نظر نہیں آرہا باہر کچرے کا انبار لگا ہے، اٹھو بھائیو! یہ اچھے اچھے سوٹ پہن کر فائیو سٹار ہوٹلوں میں ڈنر کرنے کا وقت نہیں ہے، کام کرنے کا وقت ہے، اِس شہر کو بچانے کا وقت ہے۔‘ صاف نظر آرہا تھا کہ وہ اپنے الفاظ ناپ تول کر استعمال کر رہے ہیں،اپنا غصہ چھپا رہے ہیں۔ شاہد خان آفریدی کو 20 سال انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے اور ریٹائر ہونے کے فوراً بعد آخر کار اپنے جذبات پر قابو رکھنا آگیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ وقت ملنے پر شاہد آفریدی نے عوام کے مسائل کی نشاندہی کی اور ا ن کی باتوں سے یقیناً ہر کراچی میں رہنے والا متفق ہو گا۔

کراچی دفتر کے اس کلرک کی طرح ہے جو سب کے کام کرتا ہے اس کا کام کوئی نہیں کرتا۔ کوئی ذمہ داری لینے کو تیار ہی نہیں ہے۔ کلرک کے انتہائی ضروری کاموں کی فائل ایک میز سے دوسری میز پر منتقل ہوتی رہتی ہے۔ سب ایک دوسرے پر ذمہ داری تھوپنے کے لیے تیار رہتے ہیں کام کوئی نہیں کرتا۔ ہزاروں نئے لوگ ہر مہینے اِس شہر میں آتے ہیں اور اِس میں گم ہو جاتے ہیں۔ بڑا انسان دوست شہر ہے۔ آپ ملک کے کسی شہر سے بھی کراچی پہنچیں آپ کو اپنے مزاج اور زبان کے لوگ مل جائیں گے۔ انگریزی میں میلٹنگ پوٹ اسی کو کہتے ہیں۔ مگر اب اِس پوٹ کو دھونے کی ضرورت ہے، مانجھنے کی ضرورت ہے۔ کراچی کا بجٹ کراچی پر لگانے کی ضرورت ہے۔

ابھی حال ہی میں میرے ایک دوست نے کراچی کی تعریفوں کے پُل باندھتے ہوئے بتایا کہ کراچی اب خوب ترقی کر رہا ہے۔ نئے نئے شاپنگ مال بن رہے ہیں، بین الاقوامی برانڈز کراچی میں موجود ہیں، نئے اور جدید ریسٹورانٹ اور برگر پوائنٹس کھل رہے ہیں۔ چند ایک برگروں کو انھوں نے ایسے بیان کیا کہ میرے منہ میں پانی بھر آیا اور ان کے خود کے پسینے چھوٹ گئے۔ 4 جی کی انٹرنیٹ رفتار کے بارے میں بتایا اور یہ بتایا کہ وہ کیسے فلمیں آسانی سے 250 روپے میں ریلیز ہونے سے دو دن پہلے دیکھ لیتے ہیں۔

دوستوں کے ساتھ رات گئے تک نئے انداز کے جدید ڈھابوں پر بیٹھ کر گپیں ہانک سکتے ہیں اور گرم گرم پراٹھوں کے مزے اڑا سکتے ہیں، میں نے سوچا بھائی کی توجہ تعلیمی نظام، سیوریج کے نظام، پانی اور بجلی کے مسائل، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری پر بھی دلوائی جائے مگر پھر سوچا چھوڑو انہیں ان مسائل کے بارے میں مجھ سے بہتر پتہ ہو گا۔ وہ شاید فی الحال غافل رہنا چاہتے ہیں یا پھر یہ مسائل ان کے شہر کا یوں حصہ بن گئے ہیں کہ اب یہ مسائل، مسائل نہیں رہے زندگی بن گئے ہیں۔

حیدر جناح
لندن
 

Post a Comment

0 Comments