Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی میں لوڈ شیڈنگ کا ذمہ دار کون ہے ؟

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بجلی کے بحران نے ایک بار پھر شدت اختیار کر لی ہے اور اسمبلی کے فلور سے لے کر سڑکوں پر اس کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔ کراچی کی سڑکیں شہر کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے الیکٹرک کے خلاف بینروں سے سجی ہوئی نظر آتی ہیں۔ جماعت اسلامی نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا لیکن سید مراد علی شاہ نے گذشتہ روز جماعت اسلامی کی قیادت سے ملاقات کی اور لوڈشیڈنگ کا ذمہ دار وفاقی حکومت کو قرار دیا۔

اس کے بعد جماعت اسلامی کی جانب سے کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کی قیادت میں پریس کلب کے باہر احتجاج میں مطالبہ کیا گیا کہ کے الیکٹرک اپنے تمام پاور پلانٹس کو چلائے۔ دوسری جانب پاک سرزمین پارٹی کی جانب سے بھی کے الیکٹرک کے مرکزی دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں شہر بھر سے قافلے شریک ہوئے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سوئی سدرن گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کے درمیان تکرار کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ’وفاقی حکومت سوئی سدرن گیس کمپنی کی 73 فیصد مالک ہے جبکہ کے الیکٹرک میں اس کے 24 فیصد شیئرز ہیں لیکن وفاقی حکومت کو کوئی پرواہ نہیں۔‘

کے الیکٹرک کے ترجمان علی ہاشمی کا کہنا ہے کہ انھیں 100 ملین کیوبک فٹ گیس کی کمی کا سامنا ہے اس کی وجہ سے 500 میگاواٹ کی قلت ہو رہی ہے۔
انھوں نے کہا ’کراچی میں بجلی کی موجودہ طلب 2600 سے 2700 میگاواٹ ہے جبکہ پیداوار 2100 سے 2200 میگاواٹ ہو رہی ہے۔‘ کے الیکٹرک کو سوئی سدرن گیس کمپنی 19 ملین کیوبک فٹ گیس فراہم کرتی ہے جبکہ موجودہ وقت تقریباً 100 کیوبک فٹ گیس فراہم نہیں کی جا رہی ہے۔ سوئی سدرن گئس کمپنی کے ترجمان شہباز اسلام کا کہنا ہے کہ وہ ٹرانسمیشن کمپنی ہیں اور گیس کمپنی سے خرید کر کے صارفین کو فروخت کرتے ہیں۔ موجودہ وقت گیس کے ذخائر کم ہو رہے ہیں، گیس کی طلب زیادہ اور رسد کم ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کے الیکٹرک کو گذشتہ سال کے مقابلے میں 100 ملین کیوبک فٹ فراہمی کم ہو رہی ہے۔

انھوں نے کہا ’کے الیکٹرک ہم سے جو گیس طلب کرتی ہے اس کے لیے کوئی معاہدہ نہیں ہے، سنہ 1970 میں جو معاہدے ہوا وہ صرف 10 ملین کیوبک فٹ کا تھا۔ اس کے باوجود بھی ہم انھیں 80 ملین کیوبک فٹ اضافی دے رہے ہیں اگر کے الیکٹرک ہم سے معاہدہ کر لیتی ہے تو ہم اسے مزید گیس فراہم کر سکتے ہیں۔ ‘
کے الیکٹرک کی سنہ 2005 میں نجکاری کی گئی تھی۔ کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے کئی سالوں سے کوشش کر رہے ہیں کہ کے الیکٹرک سے معاہدہ ہو جائے لیکن یہ کیوں نہیں ہو سکا یہ سوئی سدرن گیس کمپنی بتا سکتی ہے۔

بقایاجات کا تنازع

کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس میں ایک دیرینہ تنازع بقایاجات کا بھی ہے۔ گیس کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کے حساب سے 80 ارب روپے بقایاجات بنتے ہیں جبکہ کے الیکٹرک کہتی ہے کہ 13.5 ارب روپے ہیں اور یہ کوئی چھوٹا فرق تو نہیں۔ انھوں نے کہا ’کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے درمیان وزیر اعلیٰ ہاؤس میں یہ طے ہوا تھا کہ کسی تیسرے فریق سے آڈٹ کروایا جائے گا جو 21 روز میں طے کر کے بتائے گا کہ کتنے پیسے بنتے ہیں؟ اس حوالے سے ہم نے ٹرم آف ریفرنس بنا کر دے دیے لیکن کے الیکٹرک کی طرف سے ابھی تک کوئی مثبت جواب نہیں آیا ہے۔‘

کے الیکٹرک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بقایاجات کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے جس کی وجہ سے اس پر کوئی بات نہیں ہو سکتی ہے۔ نینشل الیکٹرک پاور ریگیولیٹری اتھارٹی نیپرا کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک 2200 میگا واٹ بجلی فراہم کر رہی ہے جس میں 1100 میگاواٹ اس کی اپنی پیداوار ہے، 650 میگاواٹ قومی گرڈ سے لی جاتی ہے جبکہ باقی نجی پاور پروڈیوسرز سے حاصل کی جاتی ہے ۔  کے الیکٹرک کے پاس موجودہ پلانٹ قدرتی گیس کے علاوہ ایل این جی، فرنس آئل اور ہائی سپیڈ ڈیزل سے بھی بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ نیپرا کا کہنا ہے کہ کے الیکٹراک نے ان ذرائع کو استعمال کر کے بجلی پیدا نہیں کی۔

نیپرا کے سابق رکن فضل اللہ قریشی کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک کے پاس اس بنیاد پر لوڈشیڈنگ کا کوئی جواز نہیں ہے کہ اس کو گیس نہیں مل رہی، کیونکہ گیس کمپنی کی اپنی ترجیحات ہیں۔ سوئی سدرن گیس انھیں اس وجہ سے گیس فراہمی نہیں کر رہی ہے کیونکہ وہ اچھے صارف نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا ’کے الیکٹرک بجلی پیدا کرنے کے متبادل ذرائع سے اس کمی کو پوری کرنے کی اہلیت رکھتی ہے یعنی وہ ہائی سپیڈ ڈیزل یا فرنس آئل سے بجلی پیدا کر سکتی ہے، اگر اس کی لاگت زیادہ آتی ہے تو نیپرا ٹیرف ایڈجسٹمنٹ میں اس کو دے دیتا ہے کیونکہ ہر مہینے فیول ایڈجسمنٹ ہوتی ہے اگر آپ مہنگا ایندھن استعمال کریں گے تو وہ ٹیرف میں مل جائے گا۔‘ کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ ڈیزل کا ٹیرف ابھی تک متعین نہیں ہوا ہے، نرخ طے ہونے کے بعد پلانٹ کو کمیشن کیا جاتا ہے جس میں پانچ سے چھ ماہ لگتے ہیں جبکہ جو حالیہ ٹیرف ہے اس پر بھی عدالت میں معاملہ زیر سماعت ہے۔ اگر حکومت ٹیرف متعین کر دے تو انھیں کام کرنے میں آسانی ہو گی۔

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
 

Post a Comment

0 Comments