Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی میں بے گھر افراد کی تعداد میں تشویش ناک اضافہ

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر، صوبائی دارالحکومت اور معاشی مرکز ہے کیوں کہ یہاں باقی شہروں کے مقابلے میں کاروبار اور ملازمتوں کے مواقع سب سے زیادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ملک کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں اور علاقوں سے لوگوں کی آمد کا سلسلہ سارے سال جاری رہتا ہے۔ مہاجرت کا یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے جس کے باعث اب صورتِ حال یہاں تک آ پہنچی ہے کہ دوسرے علاقوں سے آنے والوں کی یہ ’عارضی جنت‘ شہر کے لیے ’سزا‘ بنتی جا رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر کے مسائل تو دن رات بڑھ ہی رہے ہیں، شہر کو مسلسل آبادی کے دباؤ کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ سے کچی بستیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور بے گھر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

شانیل خواجہ حبیب یونیورسٹی سے وابستہ محقق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملازمتوں کے مواقع اور ہنرمند افراد کے درمیان فرق بے گھر افراد کی تعداد میں اضافے کی اصل وجہ ہے۔ وی او اے کے نمائندے نے رپورٹ کی تیاری کی غرض سے شہر کے مختلف علاقوں کا متعدد بار دورہ کیا تو بہت سے نئے مشاہدات سامنے آئے۔ جیسے شہر میں بے گھر افراد کی تعداد میں پچھلے 25 سے 30 برسوں کے درمیان سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ نئی نئی بستیاں اور گوٹھ آباد در آباد ہونے کے بعد ان میں بھی جگہ ختم ہو گئی ہے اور لوگ سڑکوں کے کنارے، پلوں کے نیچے، ریلوے اسٹیشنز، اسپتالوں کے باہر اور جھونپڑیوں میں رہ رہے ہیں۔

مسلسل نقل مکانی کے باعث شہر میں بے روزگاروں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
سرجانی ٹاؤن، گلستان جوہر، نارتھ کراچی، نیو کراچی، گلشن اقبال، لیاقت آباد، گلبرگ، ڈیفنس، صفورا گوٹھ، سہراب گوٹھ، سپرہائی وے، لانڈھی، ملیر، اولڈ سٹی ایریا، ایم اے جناح روڈ، طارق روڈ، سوسائٹی، شاہراہ فیصل، محمود آباد، چنیسر گوٹھ، سائٹ ایریا، اورنگی ٹاؤن، کورنگی، ڈیفنس، کلفٹن کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں آبادی کا دباؤ محسوس نہ ہوتا ہو یا جہاں لوگ سڑکوں کے کنارے، کھلے آسمان تلے یا کچی آبادیوں میں نہ رہتے ہوں۔

وی او اے کے نمائندے نے درجنوں بے گھر افراد سے ان کے کراچی آنے کا سبب پوچھا تو سب کا تقریباً ایک ہی جواب تھا : معاشی حالات میں بہتری اور اچھے مستقبل کے خواب اور روزگار کے زیادہ مواقع۔ کراچی میں آبسنے والے ان افراد کا تعلق ملک کے چاروں صوبوں سے ہے۔ تاہم سب سے زیادہ پنجاب سے لوگ کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ اس کے بعد اندرون سندھ، پھر خیبر پختونخوا اور آخر میں بلوچستان کا نمبر آتا ہے۔ چار بچوں کی والدہ اور عمر کے اعتبار سے قریب 40 سالہ ایک خاتون نے وی او اے کو اپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پنجاب سے آمدنی میں اضافے کی خواہش لیے برسوں پہلے اپنے شوہر، دیور اور بھائی کے ساتھ شہر آئی تھیں لیکن یہاں آکر بھی ان کے شوہر کو کوئی بہتر روزگار نہیں ملا۔ کئی سال کی محنت کے بعد آج وہ ٹھیکے پر بڑھئی کا کام کرتے ہیں جبکہ وہ خود مختلف گھروں میں جھاڑو پوچھا کرتی ہیں لیکن میاں بیوی، دونوں کے کمانے کے باوجود وہ کوئی رقم پس انداز نہیں کر پاتے اور مہینے کے آخری دن تو ادھار لے کر گزارنے پڑتے ہیں۔

خاتون اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ نیو کراچی میں صبا سنیما کے پاس سڑک کنارے بنی جھونپڑیوں میں رہتی ہیں جبکہ شروع کے کئی سال وہ ناگن چورنگی کے پل کے نیچے رہا کرتی تھیں۔ کراچی کے 'انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن' میں گزشتہ دنوں ہونے والی سالانہ ’سوشل سائنسز اور ہیومینیٹیرینز کانفرنس' میں بھی ان مسائل پر روشنی ڈالی گئی۔ کانفرنس کے شرکا نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بے روزگاری میں اضافے اور چھوٹے علاقوں سے ہجرت کے باعث شہر کا موجودہ انفراسٹرکچر اور وسائل دباؤ کا شکار ہیں۔ کانفرنس میں آئی بی اے کے 'سوشل سائنس اور ہیومینیٹیرین ڈپارٹمنٹ' کی چیئرپرسن ڈاکٹر فوزیہ مشتاق نے بتایا کہ کراچی کے مسائل سے متعلق مزید تحقیق اور اس تحقیق کی روشنی میں عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ صورتِ حال کو بہتر بنایا جا سکے۔

کانفرنس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ بے گھر افراد کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد کو روکنے کے لیے حکومتی پالیسیوں میں نئی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
ماہرین کے مطابق بے گھر افراد کی تعداد میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے وہ باعثِ تشویش ہے۔ آبادی میں مسلسل اضافے سے وسائل کم سے کم ہوتے جارہے ہیں حتیٰ کہ کرائے کے مکانات میں بھی کمی کا سامنا ہے۔ پانی کا بحران بے قابو ہو رہا ہے، بجلی کی رسد اور کھپت میں فرق بڑھتا جارہا ہے، اسپتالوں میں جگہ نہیں، اسکولوں میں داخلہ نہیں، سڑکوں پر ٹریفک بے ہنگم ہے، گندگی کے ڈھیر بڑھ رہے ہیں اور لوگ قطار در قطار ملازمتوں کے انتظار میں بوڑھے ہو رہے ہیں۔

وسیم صدیقی

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

Post a Comment

0 Comments