Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی میں دو دریا مسمار کر کے یہاں کیا بنایا جائے گا ؟

کراچی کا ساحلی علاقہ دو دریا دس سال قبل تک ایک ویران علاقہ تھا جہاں لوگ جانے سے گھبراتے تھے لیکن کچھ لوگوں نے رسک لیا اور یہاں ریسٹورانٹ قائم کیے جو چند سالوں میں کامیابی کے ساتھ چلنے لگے۔ یہ وہ دن تھے جب کراچی میں بدامنی عروج پر تھی اور شہری آبادیوں میں واقع فوڈ سٹریٹ ویران ہو چکی تھیں۔ یہ فوڈ سٹریٹ پاکستان کے اندر اور بیرون ملک کراچی کی ایک نئی پہچان بن گی اور یہاں مہمانوں کو لانا ضروری سمجھا جاتا ہے، لیکن اب ڈیفیس ہاؤسنگ اتھارٹی ان ریسٹورانٹس کو بند کرنا چاہتی ہے، جس پر شہری ناخوش ہیں جس کا اظہار وہ سماجی ویب سائٹس پر بھی کر رہے ہیں۔

سمندر کے ساتھ قائم سترہ کے قریب ریسٹورانٹس کے ڈھانچے لکڑی سے بنائے گئے ہیں، شام کو سورج جیسے ہی نارنجی رنگ بکھرتا ہوا غروب ہوتا ہے یہاں اسی روشنی کے رنگ کی لائٹس مدھم روشنی کے ساتھ جل اٹھتی ہیں جس سے ایک رومانوی ماحول نظر آنے لگتا ہے۔ یہاں ایک نوبہاتا جوڑے سے ملاقات ہوئی جن کی حال ہی میں راولپنڈی میں شادی ہوئی تھی۔ نوجوان کراچی میں ایک فرٹیلائزر کمپنی میں کام کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کا پہلا ڈنر ہے یہاں کی لوکیشن اور ماحول انہیں یہاں لے آیا، وہ سمجھتے ہیں کہ ان ریسٹورانٹس کو مسمار کرنا ایک غلط اقدام ہو گا۔

شاری کا تعلق چین سے ہے وہ کراچی میں ایک کنسٹریکشن کمپنی میں کام کرتی ہیں انہیں پاکستانی کھانے پسند ہیں اس لیے وہ دو دریا پر آتی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ جگہ بہت پسند ہے یہاں کی لائٹس، کچن، مچھلیاں، یہ خوبصورت ڈھانچہ اور کھانا۔ انہوں نے اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ یہ سب کچھ بند کیا جارہا ہے اور امید ظاہر کی کہ کوئی متبادل فراہم کیا جائیگا۔ سمندر کی لہریں جب ریسٹورانٹس کی بنیادوں سے ٹکراتی ہیں تو ساتھ میں آبی پرندے بھی آکر بیٹھ جاتے ہیں لوگ انہیں روٹی کے ٹکڑے پھینک دیتے ہیں جبکہ چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی برآمد ہو جاتی ہیں، شفاف پانی اور آلودگی سے صاف ہوا میں یہ منظر شہریوں کو اپنی طرف کھینچ لاتا ہے۔

کراچی کے ایک شہری جو امریکہ میں رہتے ہیں جب بھی یہاں آتے ہیں تو دو دریا ضرور آتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسی اچھی جگہ ہے جہاں پر فیملیز آکر محفوظ محسوس کرتی ہیں اور لطف اندوز ہوتی ہیں لیکن اب یہ جگہ نہیں رہیگی۔
’لوگوں کو پھر دوسری جگہ ڈھونڈنی پڑیگی کہ وہ کہاں جا سکتے ہیں، لیکن ایسا متبادل نہیں مل سکتا جہاں پر فطرت دستیاب ہے اور فیملی کا میل جول بھی ہوسکتا ہے۔‘ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی نے یہ پلاٹس لیز پر فراہم کیے تھے جبکہ یہاں پر پانی، گیس اور بجلی کا انتظام ہوٹل مالکان نے اپنے طور پر کیا ہے، یعنی بجلی جنریٹر، گیس سلینڈر اور پانی ٹینکر سے حاصل کیا جاتا ہے۔

احسن ناظم آباد میں رہتے ہیں اور دو دریا فوڈ اسٹریٹ بند ہونے کا سن کر انہیں مایوسی ہوئی بقول ان کے یہ بہت اچھی جگہ تھی جہاں شہر کی دھول مٹی، شور اور غل سے دور فیملی کے ساتھ ڈنر سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ’اب جب کراچی میں ترقی ہو رہی ہے تو ہم کراچی والوں کو جو چھوٹی چھوٹی خوشیاں ملی ہیں ان کو ختم نہیں کرنا چاہیے۔‘ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی یعنی ڈی ایچ اے نے 2013 میں ان ریسٹورانٹس کو نوٹس جاری کیے جس میں انہیں آگاہ کیا گیا کہ ان کی لیز کی مدت پوری ہو چکی ہے لہٰذا وہ اپنا کاروبار بند کر کے جگہ خالی کر دیں، اگر اس جگہ کو دوبارہ دینے کی نیلامی ہوئی تو وہ اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔

ڈی ایچ اے کے اس فیصلے کے خلاف بعض ریسٹورانٹ مالکان نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور حکم امتناعی حاصل کر لیا، جس کے بعد دو دریا آنے والی سڑک کو ڈی ایچ اے سرویلنس حکام نے رکاوٹیں کھڑی کر کے بلاک کر دیا۔ اس سے یہاں آنے والے شہریوں کو مشکلات اور سوالات کا سامنا کرنا پڑا، مالکان نے جب توہین عدالت کی درخواست دائر کرنے کی دھمکی دی تو یہ رکاوٹیں ہٹا دیں۔ سندھ ہائی کورٹ میں ابھی مالکان کی درخواست زیر سماعت ہے تاہم تین ریسٹورانٹس بند ہو چکے ہیں جبکہ ڈی ایچ اے سرویلنس کے اہلکار تعینات ہیں، جو پولیس کا کام کرتے ہیں۔

یہ ریسٹورانٹس مسمار کر کے یہاں کیا بنایا جائے گا ؟ کئی بار رابطے کے باوجود ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کی جانب سے کوئی موقف سامنے نہیں آسکا ہے، بعض غیر تصدیق شدہ اطلاعات کے مطابق یہاں بلند عمارتیں بنائی جائیں گی جبکہ بعض کا خیال ہے کہ سپورٹس کامپلیکس بنایا جائے گا تاہم ایک ہوٹل کے مالک نے مجھے موبائل پر علاقے کا نقشہ دکھا کر بتایا کہ یہاں کمرشل پلاٹنگ کی جا رہی ہے جو پلاٹ پہلے 9 لاکھ مالیت کا تھا وہ اب 9 کروڑ کا ہو چکا ہے۔

ریاض سہیل
بی بی سی اردو، کراچی
 

Post a Comment

0 Comments