Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی والوں سے مذاق ؟

شیخ رشید پھر ریلوے کی وزارت کے نگراں مقرر ہوئے اور بلند و بانگ دعوے کرنے لگے۔ صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے کراچی سے دھابیجی تک چلنے والی لوکل ٹرین کا افتتاح کیا، کینٹ ریلوے اسٹیشن پر رنگا رنگ تقریب ہوئی۔ اس افتتاحی تقریب کے بعدیہ خبر اخبارات کی زینت بنی اور ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز کے طور پر چلی کہ یہ ریل گاڑی گزشتہ ایک ماہ سے چل رہی ہے اور اس ریل گاڑی میں ریلوے کا وہ عملہ سفر کرتا ہے جن کی ڈیوٹیاں پپری مارشیلنگ یارڈ میں ہے۔ ریلوے مزدوروں میں ساری زندگی تنظیم سازی اور حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے زندگی وقف کرنے والے مزدور رہنما منظور رضی نے کہا کہ ٹرین چلانے کا اعلان کراچی کے شہریوں کے ساتھ مذاق ہے۔ اگر ایسی دس گاڑیاں روز چلائی جائیں اور یہ گاڑیاں سرکلر ریلوے کے تمام اسٹیشنوں پر رکیں اور ان کا کرایہ 30 روپے سے زیادہ نہ ہو تب تک اس گاڑی کا کوئی فائدہ نہیں۔

سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اسی دن ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے پبلک ٹرانسپورٹ کے بحران کا حل سرکلر ریلوے ہی ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں میں کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ بھی شامل ہے لیکن جب وزیر اعظم کے دورہ چین کی تمام تفصیلات اور کئی معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں کے حقائق سامنے آئے تو ان میں کوئی بھی کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق نہیں۔ کراچی کے شہریوں کے ساتھ برسر اقتدار حکومتوں کے ناروا سلوک کی داستان خاصی پرانی ہے ۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں گورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے بھی کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے کئی وعدے کیے، پھر ایک دن اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز، کراچی سٹی اسٹیشن پر ہونے والی تقریب کے مہمان خصوصی بنے اور اسی طرح کی رنگا رنگ تقریب میں سرکلر ریلوے کا افتتاح کیا تھا۔

گورنر سندھ عشرت العباد نے اس موقعے پر فرمایا تھا کہ پہلے سرکلر ریلوے سٹی اسٹیشن سے ڈرگ روڈ اسٹیشن تک چلے گی مگر چند ماہ بعد یہ خبریں شایع ہوئیں کہ اس سرکلر ریلوے کے ٹکٹ فروخت کرنے کا ذمے دار ٹھیکیدار فرار ہو گیا ۔ یوں یہ ریل گاڑی اخبارات کی فائلوں میں روپوش ہو گئی ۔ بہت عرصہ تک یہ سلسلہ رہا کہ جاپان کا ادارہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی میں دلچسپی لے رہا ہے۔ اس ادارے کی ایک ٹیم سروے کے لیے کراچی آئی مگرسیکیورٹی کلیئرنس نہ ملنے کی بناء پر سروے نہ کر سکی۔ کراچی کی ترقی میں دلچسپی لینے والے ماہرین کا کہنا تھا کہ کراچی میں لینڈ مافیا نے سرکلر ریلوے کی زمینوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ ان زمینوں پر چائنا کٹنگ کر کے چھوٹے چھوٹے پلاٹ بنائے گئے اور مالکانہ حقوق کے ساتھ یہ پلاٹ فروخت ہو گئے۔ ان پلاٹوں کے غیر قانونی مالکان نے مکانات تعمیر کیے۔

لینڈ مافیا نے ان پلاٹوں پر آباد ہونے والوں کو مالکانہ حقوق کے کاغذات بھی دے دیے، ان مکانات میں بجلی، پانی اورگیس کے کنکشن موجود ہیں۔ محکمہ پولیس نے کئی مقامات پر تھانے اور چوکیاں قائم کرلیں۔ سٹی گورنمنٹ اور کے ڈی اے کے عملے نے سڑکیں تعمیر کر دیں، کچھ مقامات پر اسٹیشنوں پر ریل کی پٹریوں کے نشانات تک مٹ گئے مگر کراچی میں کچھ مقامات پر سرکلر ریلوے کے اسٹیشنوں کے نشانات موجود ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم کے دور میں حکومت کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ سرکلر ریلوے کی پٹریوں اور ریلوے اسٹیشنوں سے تجاوزات ختم کرائے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت ایم کیو ایم کا سندھ حکومت پر قبضہ تھا، یوں یہ کام شروع نہ ہوا۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ قائم علی شاہ نے وزیر اعلیٰ سندھ کا عہدہ سنبھالا۔ اس زمانے میں پاکستان ریلوے شدید بحران کا شکار رہا۔

اس زمانے میں سابق صدر آصف زرداری نے چین کے ان گنت دورے کیے، شاید سی پیک منصوبے کے ابتدائی خدوخال اسی دور میں تیار ہوئے، مگر صدر زرداری کو کراچی پبلک ٹرانسپورٹ کے مسئلے کے لیے چین کی مدد حاصل کرنے کا خیال نہیں آیا۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو حتمی شکل دی تو وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے یہ خوشخبری سنائی کہ یہ منصوبہ سی پیک میں شامل ہے مگر اسی دوران لاہور ، اسلام آباد اور ملتان میں میٹرو بس کے منصوبے مکمل ہونے کے بعد لاہور میں اورنج ٹرین کا منصوبہ تکمیل کے قریب پہنچا ، کراچی سرکلر ریلوے پرکوئی کام نہ ہوا ۔ 2018ء میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی معیاد ختم ہوئی تو وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اس حقیقت کو بیان کرنے پر مجبور ہوئے کہ چین سرکلر ریلوے کے منصوبے میں دلچسپی نہیں لے رہا ہے۔ کراچی کے شہریوں کے لیے 60ء اور 70ء اور 80ء کی دھائی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا سستا اور تیز رفتار ذریعہ تھا ۔ کراچی میں صبح کے آغاز کے ساتھ لانڈھی اسٹیشن سے تیز رفتار ریل گاڑیاں کراچی سٹی اسٹیشن کی طرف روانہ ہوتی تھیں۔

ایک طرف کا کرایہ زیادہ سے زیادہ ایک روپیہ تھا۔ پھر 10 سے 15 منٹ کے وقفے سے کراچی کے مسافروں کے لیے مہیا ہوتی تھی۔ مسافر گھر سے گھڑی دیکھ کر ریلوے اسٹیشن پہنچتے ۔ روزانہ سفر کرنے والے مسافر 15 روپے ماہانہ پاس بھی پیشگی رقم دے کر خرید لیتے تھے۔ شام کو سٹی اسٹیشن سے لانڈھی جانے کا اسی طرح سلسلہ شروع ہوتا تھا۔ یہ سفر 30 سے 40 منٹ سے زیادہ کا نہیں ہوتا تھا۔ سٹی اسٹیشن سے سائٹ، ناظم آباد اور گلشن اقبال جانے والے اور وہاں سے واپس آنے والے مسافر سرکلر ریلوے کو بہترین ذریعہ سمجھتے تھے۔ اس ریل گاڑی میں خواتین کے لیے الگ ڈبے مختص ہوتے تھے۔ بلب روشن ہوتے، پنکھے باقاعدگی سے چلتے، ریلوے کا عملہ ڈبوں کی صفائی اور گاڑیوں کے وقت پر پہنچنے پر سخت توجہ دیتا تھا۔ جب ٹرانسپورٹ مافیا مضبوط ہونا شرع ہوئی تو سرکلر ریلوے کے نظام الاوقات کو خراب کیا گیا۔ انجن خراب ہونے لگے اور ڈبوں کی تعداد کم ہونے لگی، ریل گاڑیاں غائب ہونے لگیں۔ ڈبوں سے بلب اور پنکھے غائب ہو گئے۔

لاکھوں لوگوں کا سرکلر ریلوے سے اعتماد اٹھنے لگا۔ ریلوے حکام نے مسافروں کی شکایات کا ازالہ کرنے کے بجائے ریل گاڑیوں کی تعداد کم کر دی۔ ریلوے کا خسارہ بڑھ گیا اور حکام نے اس نظام کو زیادہ مؤثر بنانے کے بجائے سرکلر ریلوے کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام ختم ہو چکا ہے۔ ہنگاموں اور لوٹ مارکے واقعات کے تسلسل کے بعد ٹرانسپورٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والے دیگر شعبوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ بسوں اور منی بسوں کی تعداد کم ہو گئی۔ سابق سٹی ناظم نعمت اﷲ خان کے دور میں بینکوں کے قرضوں سے چلائی جانے والی جدید بسیں ان کا دور نظامت ختم ہونے کے بعد لاپتہ ہو گئیں۔ کچھ نے بینکوں کا قرضہ واپس نہ کیا اور بسیں ضبط ہو کر کوڑے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئیں۔ سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے سارا دور اوور ہیڈ برج اور انڈرپاس کی تعمیر پر وقف کیا۔ انھوں نے ٹرانسپورٹ کے جدید ریل گاڑیوں کے زیر زمین نظام اور ٹرام وے چلانے کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارہ نہ کی۔

اپنے دور کے آخری حصے میں کورنگی اور لانڈھی سے سہراب گوٹھ تک ، سی این جی بسیں چلائیں جو ان کی رخصتی کے بعد ہی غائب ہو گئیں۔ ان کے دور کا کارنامہ چین کے چنگ چی موٹر سائیکل رکشہ ہیں جو چینیوں نے باربرداری کے لیے تیار کیے تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی میں مختلف نوعیت کی میٹرو بسیں چلانے کے اعلانات کیے مگر عملاً کچھ نہ ہوا۔ سابق وزیر ٹرانسپورٹ ناصر شاہ 10 بسیں چلا کر اپنے فرائض منصبی سے سبکدوش ہوئے۔ میاں نواز شریف نے سرجانی ٹائون سے گرومندر تک گرین لائن بس منصوبہ تعمیر کرنا شروع کیا ، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی چپقلش کی بناء پر یہ منصوبہ تاحال پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا ہے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اعلان کیا تھا کہ وفاقی حکومت اس منصوبے کے لیے بسیں فراہم کرے گی مگر ان کی حکومت کی معیاد ختم ہوئی اور موجودہ وفاقی حکومت اس اعلان پر عمل درآمد کے لیے تیار نہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے 10 منصوبے مکمل ہونگے توکراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل ہو گا۔ اب شیخ رشید نے بھی کراچی کے شہریوں کے ساتھ مذاق کیا ہے۔ کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا حل کس کے پاس ہے؟ کراچی کے شہریوں کا جدید اور آرام دہ ارزاں ٹرانسپورٹ کے نظام کا خواب کب پورا ہو گا ؟

ڈاکٹر توصیف احمد خان
 

Post a Comment

0 Comments