Ticker

6/recent/ticker-posts

خان صاحب : کراچی کو کیوں نظرانداز کیے جارہے ہیں؟

’’دیکھو میاں ! کراچی کے مسائل اتنے گمبھیر نہیں جتنا شہر قائد کی لوکل و سرکاری حکومتیں آج تک بتاتی رہی ہیں۔ ان کا رونا دھونا مگرمچھ کے آنسو ہیں۔ شہر قائد کے باسیوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے اور تبدیلی کا طوفان آنا تو درکنار، تبدیلی کی ہوا تک کراچی کو نہیں لگی۔ آج تک ساری سیاسی جماعتوں نے مل کر کراچی کی بوٹیاں نوچیں، ہر ایک جتنا برا کر سکتا تھا، اس نے کیا۔ میں نے 2018 کے الیکشن میں نے پوری فیملی سمیت پی ٹی آئی کو ووٹ دیا۔ ’’کراچی کے چند مسائل ایسے ہیں جو برسوں سے دن بدن تشویشناک شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ سندھ میں کئی سال سے پیپلز پارٹی کے ڈیرے ہیں۔ سائیں قائم علی شاہ نے سوائے چٹکلے چھوڑنے کے کراچی کے لیے کتنے تارے توڑے؟

یہاں کچرے کے ڈھیر لگ گئے۔ شہر کی غریب پسماندہ آبادیوں کو گاؤں سے بھی گیا گزرا بنا دیا گیا۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئیں۔ ’’عام آدمی صبح گھر سے صاف ستھرا دفتر جاتا ہے، شام کو اسے فیملی والے پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ مجھے دیکھ لو۔ میں ایک زندہ مثال بیٹھا ہوں تمہارے سامنے،‘‘ انکل جی نے بس کی  کھڑکی سے باہر نظر ڈالی اور بولے۔ ’’میاں! آپ کراچی کے پل، انڈر پاسز اور سڑکوں کے ارد گرد جمع ہونے والی مٹی اکٹھی کریں تو کئی ڈمپر بھر لیں گے۔ یہ توہمارے ہاں صفائی کا حال ہے۔ یہاں کی کچی آبادیوں کے مسائل ڈیڑھ عشرے سے جوں کے توں ہیں۔ کسی نے نظر کرم کرنا گوارا کیا؟ اس شہر میں ملک کے دور دراز علاقوں سے غریب اپنا اپنے بچوں کا پیٹ پالنے آتے ہیں، وہ اس شہر کو ماں سمجھ کر یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ انہیں ملتا کیا ہے؟ 

سوائے دن رات محنت کر کے چند سو روپوں کے، بغیر چھت کا کوارٹر جس کا کرایہ اس مہنگائی کے دور میں بھرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ رہائشی کوارٹروں میں نہ پانی ہوتا ہے نہ بجلی۔ بھائی! حکومت کا غضب دیکھیے کہ جولائی کے بعد بجلی کی بندش میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ کچی آبادیوں کے مکین نئی حکومت کو بددعائیں دیتے پھر رہے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو آپ میرے ساتھ چلیے، میں آپ کو ایسے گھر دکھاتا ہوں، ایسی فیملیوں سے ملواتا ہوں جن کی عمران خان سے امیدیں بندھی تھیں، جو انہیں اپنا مسیحا جان کر جھولیاں بھر دعائیں دیتے نہیں تھکتے تھے۔ ان کی دوتین مہینوں میں مہنگائی سے چیخیں نکل گئی ہیں۔ ’’ہم غریب یہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم ہماری قبریں کھود کر نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ نیا پاکستان منظور نہیں۔ اگر وہ اسی طرح دیوار میں سر مارتے رہے تو یقین کرو بیٹا، یہ ملک کی پسماندہ اور بچی کچھی دیواریں بھی توڑ دیں گے۔‘‘

انکل جی کی باتیں سن کر ہماری تو سانسیں رک گئیں، اور ہم دم بخود انہیں تکے جارہے تھے۔ بلدیہ ٹاؤن کے ان انکل جی کی باتوں نے ہمارے رونگٹے کھڑے کر دیئے تھے۔ ہم بس میں ایک ساتھ بیٹھے تھے۔ ان کی باتوں میں سچائی تھی اور ہم سب اس سچائی کے کڑوے گھونٹ برسوں سے چپ چاپ پیتے آرہے ہیں۔ ہم نے وزیراعظم کی ’’نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی‘‘ کے بارے پوچھا تو انکل جی نے برا سا منہ بنایا اور دل کے ارمان زبان حال سے یوں بیان کرنے لگے: ’’ہمیں وزیراعظم کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ پی ٹی آئی کی اصلاحات کا اعلان ہو چکا ہے۔ خان صاحب کا کہنا ہے کہ چھ مہینوں میں مثبت اثرات آنا شروع ہو جائیں گے۔ گھبرائیے نہیں حالات درست سمت آنے والے ہیں۔ آپ مجھے بتائیے کہ ان چھ مہینوں میں غریب کا کیا حال ہو گا ؟ پچاس لاکھ گھر بنائیں، اچھی بات ہے۔ ملک کو گھروں کی ضرورت ہے۔ غریب کو روزگار ملے گا اور ہر ملک میں معیشت کے لیے ہاؤسنگ انڈسٹری روزگار کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اس سے ملکی معیشت کو گرداب سے نکالنے میں مدد ملے گی۔

’’لیکن ساتھ ساتھ سندھ میں 50 فیصد کچی آبادیوں کے مسائل بھی توجہ طلب ہیں۔ ان علاقوں میں رجسٹریشن کا مسئلہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ کچی آبادیوں کو لیز کروائے۔ ایسے محنت کش جو ہڈیاں توڑ کر ایک چھوٹا سا آشیانا بناتے ہیں، انہیں حکومت مکمل تحفظ کی یقین دہانی کرائے، ایسے علاقہ مکینوں کے سر پر ہر وقت مکان چھن جانے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ کراچی غریب کی ماں ہے اور خان صاحب نے غریب کو عزت دینے کا نعرہ الیکشن مہم میں زور شور سے لگایا تھا؛ تو اب خان صاحب کو ان غریبوں کے دکھ درد بانٹنے ہوں گے۔ کچی آبادیوں میں رہنے والوں کو کیڑے مکوڑے نہ سمجھیں۔ یہ بھی انسان ہیں اور انہیں بھی زندہ رہنے کی تمام تر سہولیات دینا ریاست کا فرض ہے۔

ہمیں خان صاحب سے زیادہ کچھ نہیں چاہیے۔ ہم غریب بس اتنا چاہتے ہیں کہ ہماری جو بنیادی ضروریات ہیں، وہ پوری کی جائیں۔ سیوریج، پانی، بجلی، گیس بلاتعطل ہمیں ملتے رہیں، اور مہنگائی کا جن جو قابو میں نہیں آرہا، اسے جکڑ کر بوتل میں بند کیا جائے۔ ہمیں کھانے کو سستی دال روٹی، پہننے کو سستا کپڑا اور رہنے کو ایک مناسب محفوظ چھت مل جائے تو ہم خوش ہو جائیں گے، اور ریاست کےلیے دعائیں کریں گے۔‘‘ اگلے اسٹاپ پر انکل جی تو اُتر کر چلے گئے، مگر ہمیں غریب گھروں کا اصل چہرہ دکھا گئے۔ حکومت ان غریبوں کے سروں پر ہاتھ رکھے اور انہیں بے یقینی کی کیفیت سے باہر نکالے۔ غریبوں کی مدد کرنا حکومت کا انتخابی نعرہ تھا۔ اور یہ نعرہ کسی ایک صوبے کے ساتھ مخصوص نہیں ہونا چاہیے۔ پورے ملک کے غریب کا سلوگن ایک ہو اور سب کو یکساں سہولیات ملنی چاہئیں۔

محمد عنصر عثمانی
ایکسپریس نیوز  

Post a Comment

0 Comments