Ticker

6/recent/ticker-posts

کیا کراچی کا تاریخی اردو بازار بھی ’گمنام ‘ ہو جائے گا ؟

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے قدیم بازاروں اور عمارتوں کی طرح اب 50 سال سے بھی زائد پرانا اور تاریخی ’اردو بازار‘ ان دنوں بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔
جس تیزی سے تجاوزات کے خلاف آپریشنز جاری ہیں انہیں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ کہیں یہ بھی ’گمنام‘ نہ ہو جائے۔ 62 سالہ راشد احمد اس بازار میں تقریباً 48 سال سے کتابوں کی دکان چلا رہے ہیں۔ پہلے وہ تنہا یہ کام کرتے تھے مگر اب ان کے بچے بھی یہ ذمے داری نبھا رہے ہیں۔ راشد احمد ماضی اور حال کے کئی ججز، شعرا، ادیب، دانشور، ارکان اسمبلی، ٹیکنو کریٹس اور دیگر اہم شخصیات کو اس بازار میں خریداری کرتے دیکھ چکے ہیں۔

بلدیہ کی لیز اور ماہانہ کرائے کی ادائیگی
دو ہفتے قبل راشد احمد اور ان سمیت کئی دکانداروں کو بلدیہ کی جانب سے نوٹس ملا کہ دکانیں خالی کر دیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ دکانیں اولڈ سٹی ایریا سے گزرنے والے نالے کے عین اوپر یا نالے کے اطراف میں قائم تجاوزات ہیں۔ اس نوٹس نے راشد احمد اور ان کے بیٹوں کے دل میں روزگار چھن جانے اور معاشی مسائل میں پھنس جانے کے وسوسے پیدا کر دئیے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بازار میں قائم دکانوں میں سے اکثر کو حکام نے لیز کے کاغذات جاری کر رکھے ہیں۔ اور بعض سے بلدیہ ماہانہ کرایہ بھی وصول کرتی ہے لیکن مالکانہ حقوق رکھنے اور بعض سے کرایہ وصول کرنے کے باوجود بھی انہیں دکانیں خالی کرانے کے نوٹس موصول ہوئے ہیں۔

کراچی کے ایم اے جناح روڈ کے کنارے آباد’ اردو بازار‘ اپنے اندر تہذیب و تمدن کی ایک دنیا سموئے ہوئے ہے۔ کم چوڑی اور چھوٹی گلیوں پر محیط یہ بازار کچھ عرصے تک ملک کا سب سے بڑا اردو بازار کہلاتا تھا جو 1958 میں مشن روڈ سے یہاں منتقل کیا گیا تھا۔ 60 سال کے دوران یہ بازار علم کے پیاسوں کا مرکز رہا۔ یہاں صرف اردو کی ہی نہیں بلکہ ہر قسم کے ادب، فکشن، شاعری، سماجی علوم، سائنس، مذہبیات سمیت بیسیوں موضوعات پر لکھی جانے والی لاکھوں کتابوں کا مسکن ہے۔ بازار میں موجود سینکڑوں دکانیں اور درجنوں اسٹالز ان گنت افراد کی علم کی پیاس بجھاتے ہیں اور ایسی صورتحال میں جبکہ کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد روز بہ روز گھٹ رہی ہے، اس وقت بازار مسمار کرنے کی باتیں ہر کتاب دوست کے دل پر گراں ہے۔ اردو بازار آنے والے طلباء بھی بازار کے مستقبل سے وابستہ سوالات پر پریشان دکھائی دیتے ہیں۔

ناقص منصوبہ بندی یا تجاوازت
تجاوزات کے خلاف دو ماہ قبل شروع ہونے والا آپریشن جہاں سینکڑوں لوگوں سے ان کا روزگار چھیننے کا باعث بنا ہے وہیں ہزاروں افراد کے لئے یہ سنجیدہ انسانی مسئلہ بھی ہے۔ شہری اداروں کی ناقص پالیسیز کے باعث گزشتہ چالیس سالوں میں تجاوزات کا مسئلہ گھمبیر شکل اختیار کر چکا ہے۔ شہر میں تجارتی اور رہائشی علاقوں میں بے ہنگم تعمیرات اور آبادی کے بے تحاشہ اضافے نے مسئلے کو مزید الجھا دیا ہے۔ ​دسمبر 2018 میں سپریم کورٹ کی جانب سے تجاوزات ہٹانے کا حکم دیا گیا تو شہر کے تقریباً تمام علاقوں میں کارروائی شروع کر دی گئی۔ لیکن سول سوسائٹی مسئلے کا حل تجاوزات کو مسمار کرنا قرار نہیں دیتی۔

معروف آرکیٹیکٹ اور ٹاؤن پلانر عارف حسن اور انسانی حقوق کے رہنماؤں نے اسے’ انسانی المیے‘ سے تعبیر کیا جبکہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی شریک چیئرپرسن عظمیٰ نورانی کا کہنا ہے کہ تجاوزات کی اصل وجہ حکومت کی جانب سے شہر کی ضروریات پوری نہ کرنا ہے۔ اُن کے نزدیک یہ مسئلہ تجاوزات کا نہیں بلکہ یہ شہری پلاننگ کا فقدان ہے۔ سماجی ماہرین کے مطابق تجاوزات کا مسئلہ درحقیقت ریاستی اداروں کی جانب سے ذمہ داریاں پوری نہ کرنے کی وجہ سے سامنے آتا ہے اور اس کا حل محض انہیں مسمار کرنے میں نہیں بلکہ پہلے متاثرین کو متبادل جگہوں کی فراہمی اور پھر ان کی مکمل بحالی میں ہے تاکہ یہ لوگ باآسانی اپنے روزگار سے وابستہ رہ سکیں اور اپنے خاندانوں کی کفالت کرتے رہیں۔

محمد ثاقب

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

Post a Comment

0 Comments