Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی کے بجلی منصوبوں میں بین الاقوامی سرمایہ کاری

اِن دنوں پاکستان بڑے معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور عمران خان کی قیادت میں قائم ہونے والی نئی حکومت اس سنگین صُورتِ حال پر قابو پانے کے لیے جان توڑ محنت کر رہی ہے۔ گو کہ اس بھاگ دَوڑ اور اصلاحات کے سبب معاشی بہتری کے کئی مثبت اشارے ملے ہیں، مگر اِس ضمن میں اب بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر آج امریکا دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہے، تو اس کا سبب وہ 36 ہزار کمپنیز ہیں، جنھوں نے مختلف شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ نیز، ہمارا پڑوسی اور دوست مُلک، چین بھی اسی راہ پر گام زَن ہے، شاید ہی دنیا کا کوئی کونا ایسا ہو، جہاں چین نے کسی نہ کسی شکل میں سرمایہ کاری نہ کر رکھی ہو، یہاں تک کہ امریکا جیسا سُپر پاور بھی اب چین کا مقروض ہے۔

ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی مُلک کی معیشت کی بہتری وہاں ہونے والی سرمایہ کاری سے مشروط ہے، اس لیے پاکستان میں ہونے والی سرمایہ کاری بھی کسی نعمت سے کم نہیں اور ہمیں مُلکی ترقّی کے لیے اسے خوش آمدید کہنا چاہیے۔ گزشتہ دنوں سعودی ولی عہد، پرنس محمّد بن سلمان نے پاکستان کا تاریخی دَورہ کیا، جس کے دَوران تقریباً 20 ارب ڈالرز کے معاہدوں اور یادداشتوں پر دست خط کیے گئے۔ یقیناً یہ پیش رفت پاکستان کے معاشی مستقبل کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے قبل چین بھی سی پیک کی صُورت میں 46 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، جن میں سے اب تک کئی ارب ڈالرز خرچ بھی کیے جا چُکے ہیں۔ واضح رہے، سی پیک کے کئی کاریڈور مکمل ہو چُکے ہیں یا پھر تکمیل کے قریب ہیں، جن میں توانائی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔

چوں کہ وطنِ عزیز کو توانائی کے سنگین بحران کا سامنا ہے، تو سی پیک کے تحت مکمل ہونے والے پاور پراجیکٹس جتنی جلد فعال ہو جائیں، اتنا ہی مُلک و قوم کے لیے بہتر ہو گا۔ اسی حوالے سے میڈیا میں ایک عرصے سے زیرِ گردش یہ خبر بھی خوش کُن ہے کہ شنگھائی الیکٹرک پاور (SEP)، ’’ کے الیکٹرک‘‘ کے 66.4 فی صد شیئرز خریدنے میں دِل چسپی رکھتی ہے۔ اگر 1.77 ارب ڈالرز مالیت کے اس معاہدے پر دستخط ہو جاتے ہیں، تو یہ پاکستان میں نجی سیکٹر میں ہونے والا سب سے بڑا معاہدہ ہو گا۔ تاہم، حیرت انگیز طور پر 27 ماہ سے گفت و شنید جاری ہے اور اب تک معاملہ منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکا۔

ماہرین کے مطابق، یہ معاہدہ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ لہٰذا، حکومتی اداروں کو اس معاہدے کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کے سدّ ِباب کے لیے فوری اور تیز رفتار اقدامات کرنے چاہئیں۔ ایس ای پی کی کارکردگی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کمپنی پچھلے 10 برسوں میں شنگھائی میں 3 ہزار میگا واٹ سے 30 ہزارمیگا واٹ تک بجلی کی پیداوار بڑھانے میں کام یاب رہی، جو اس کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 

اطلاعات کے مطابق’’ شنگھائی الیکٹرک پاور‘‘ کراچی میں 9 ارب ڈالرز سے زیادہ کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہے، جس سے بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کی صلاحیت میں مزید بہتری آئے گی۔ سو، ہمیں اس موقعے کو گنوانا نہیں چاہیے، کیوں کہ کراچی کے باسیوں کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ ایک نادر موقع ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس سال موسمِ گرما میں کراچی کے شہریوں کو 600 میگا واٹ کے شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، تو اس طرح کے مسائل سے نمٹنے کے لیے بیرونی سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی تاکہ وہ مکمل اطمینان اور یک سوئی سے اپنا سرمایہ یہاں منتقل کر سکیں۔

وجیہہ شاہد

بشکریہ روزنامہ جنگ


Post a Comment

0 Comments