سپریم کورٹ نے کراچی کو ’بڑی تباہی‘ سے بچانے کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کو میئر کراچی اور دیگر بلدیاتی حکام کے ساتھ بیٹھ کر مسائل حل کرنے اور اقدامات کی ہدایت کر دی۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کراچی میں بلدیاتی انفرا اسٹرکچر کی بدتر صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے میدانوں پارکوں اور رفاعی پلاٹس سے تجاوزات ہٹانے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں حکومت کی جانب سے 40 سال قبل لگائے گئے درخت، سبزہ اور تعمیر کیے گئے پارک، میدانوں، سڑکوں، ہسپتالوں، اسکولوں، کالجز اور جامعات کے علاوہ نئی تعمیرات نہیں کی گئیں۔ ریمارکس میں مزید کہا گیا کہ کراچی شہر میں پانی کی فراہمی کا فقدان ہے، محفوظ تفریح گاہ موجود نہیں اور نہ ہی کوئی بہتر بازار موجود ہیں۔ شہر کی کچی اور پکی سڑکوں پر گندا پانی پھیلا ہوا ہے اور شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ ریمارکس میں کہا گیا کہ کراچی کی نا مکمل اور بے رنگ عمارتیں بھوت بنگلے کا منظر پیش کر رہی ہیں، جبکہ تباہ شدہ عمارتیں آوارہ کتوں کا مسکن ہیں، شہر میں مچھروں کی افزائش سے بچنے کے لیے اسپرے بھی نہیں کیا جاتا۔
کراچی اب ایک شہر نہیں بلکہ ایک بہت بڑی کچی آبادی دکھائی دیتا ہے، یہ اب روشنیوں کا شہر نہیں رہا جس کا انتظامیہ دعویٰ کرتی ہے اور نہ ہی اب یہ شہر سبزہ کا شہر رہا ہے۔ عدالتی ریمارکس میں کہا گیا کہ میئر کراچی وسیم اختر نے کہا تھا کہ ان کے پاس کام کرنے کے اختیارات نہیں ہیں جو ان سے واپس سندھ حکومت نے لے لیے ہیں اور اب بلدیہ کراچی سندھ سیکریٹریٹ سے چلائی جارہی ہے۔ سیکریٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ وہ کراچی میں تعمیراتی کام کروا رہے ہیں۔ عدالتی بینچ نے ریمارکس دیے کہ حیرت ہے کہ پورے صوبے میں متعلقہ کام کرنے والے سیکریٹریز کو کراچی میں تعمیراتی کام کروانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
عدالت نے چیف سیکریٹری سندھ کو ہدایت کی کہ وہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے غیر فعال ہونے سے متعلق وضاحتی رپورٹ عدالت میں جمع کروائیں۔ عدالت نے میئر کراچی سے اختیارات سندھ حکومت کو دینے اور شہر کی آمدن سندھ حکومت کی جانب سے موصول ہونے سے متعلق وضاحت بھی طلب کر لی۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سندھ حکومت، بلدیاتی حکومت یا کوئی بھی بلدیاتی ادارہ شہر میں کام میں دلچسپی لینے میں دکھائی نہیں دیتا، اور شہر میں انتظامیہ تباہی کا شکار ہوگئی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ مسئلہ ایسا ہے کہ ان اداروں میں کام کرنے والے افراد نے اپنی ترجیحات بنالی ہیں، اسی وجہ سے ان اداروں میں ملازمین کی افادیت پر سوالیہ نشان بن گیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ہم کراچی میں بہتری کے لیے کسی معجزے کی امید نہیں کر رہے، تاہم حکام کسی بڑی تباہی سے بچنے کے لیے ضروری اور اہم اقدامات اٹھائیں۔ فیصلے میں امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ میئر کراچی کے ساتھ بیٹھ کر شہر کو درپیش مسائل کا حل نکالیں۔
0 Comments