تبدیلی آگئی ہے۔ قومی ایئر لائن کے طیاروں میں جو اعلان ہوتا ہے اس میں کہا جاتا ہے: خواتین و حضرات اور پیارے بچّو! میں جس پرواز میں لندن سے کرا چی جا رہا تھا اس میں دو چار نہیں ، بہت سے بچے تھے جن کے ہاتھوں میں کھلونے نہیں، اسمارٹ فون تھے اور جو سارے کام دھندے چھوڑ کر آج کی اس جدید ایجاد میں منہمک تھے۔ اس کے برعکس جتنے معمر مسافر تھے، سارے کے سارے اسمارٹ فون سے بے نیاز تھے اور سونے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ میں جس ملک کی جانب محو پرواز ہوں وہاں نسلوں کے درمیان کیسا فاصلہ دیکھنے میں آئے گا۔ کراچی کو دیکھ کر حیرت ہوئی اور عبرت بھی۔ اوّل تو یہ کہ شہر کے اندر سفر کرتے ہوئے محسوس ہوا کہ شہر کہیں ختم ہی نہیں ہوتا۔
ہم جہاں تک چلے، شہر ہمارے ساتھ چلا۔ اور وہ بھی اس شان سے کہ بستیاں اور آبادیاں کم اور ہوٹل اور طعام خانے زیادہ تھے۔ چھوٹے، درمیانے، بڑے اور بہت ہی بڑے۔ لوگوں نے میدانوں میں میز کرسیاں یا تخت اور چوکیاں بچھا کر گاہکوں کے بیٹھنے کا انتظام کر دیا ہے، جہاں مشکل ہی سے کوئی جگہ خالی ہو گی۔ اتنے بہت سے لوگ اتنا بہت سا کھا رہے تھے کہ عقل دنگ رہ گئی۔ کہیں پیالہ ہوٹل تو کہیں کوئٹہ چائے، کہیں ٹکا ٹک تو کہیں باربی کیو۔ جا بجا بریانی اور ہر جا قورمہ، دیس دیس کے نان اور بھانت بھانت کی روٹی۔ لوگ اتنے انہماک سے کھا رہے تھے کہ لگتا تھا اب اس کے بعد شہر میں کوئی بھوکا نہیں رہے گا۔ اور جو بھوکے تھے ان کے لئے جگہ جگہ لنگر نظر آئے جو دستر خوان کہلاتے ہیں، جہاں ان لوگوں کی کھپت ہوتی ہے جن کی جیبیں بھی خالی ہوتی ہیں اور پیٹ بھی۔
مخیر حضرات اور خیراتی اداروں نے بھوکوں کے لئے لنگر کھول دیے ہیں جہاں کھانے والوں کی کمی نہیں۔ چلتے چلتے ہم شہر سے ذرا باہر نکلے تو دیکھا کہ خالی پڑی ہوئی زمینوں پر لوگوں نے ہوٹل کھول دیے ہیں۔ یہی منظر آباد علاقوں میں دیکھا جہاں کراچی کی مخصوص ادا نظر آئی۔ کھاتے پیتے خوش حال لڑکوں، لڑکیوں نے وہاں چائے خانے کھول دیے ہیں، جہاں سوچئے چائے پینے کون آتا ہے، آج کل کے شاعر، ادیب، اداکار، سیاست داں، مصور، موسیقار اور وہ لوگ جو انٹلیکچوئل کہلاتے ہیں۔ کھلی فضا میں یہ لوگ شام دیر تک وہاں بیٹھتے ہیں اور آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر کون سا موضوع ہو گا جو وہاں زیر بحث نہ آتا ہو۔ میں نے کسی سے پوچھا کہ کراچی والوں کو کیا ہو گیا، کھانے پر اتنا زور کیوں ہے۔ جواب ملا کہ جب انسان پریشان ہوتا ہے یا اس کے پاس کچھ اور کرنے کو نہیں ہوتا تو کھاتا رہتا ہے۔
میرا خیال ہے یوں نہیں، کراچی کا حلیہ بدل رہا ہے، شہر کی صورت، شکل بدل رہی ہے۔ یہاں آباد نسلوں، برادریوں، قبیلوں اور علاقائی باشندوں کا تناسب تبدیل ہو رہا ہے۔ شہر جو اپنی سرحدوں کو توڑ کر دور دور تک پھیل رہا ہے، ان زمینوں پر اب ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے لوگ بس رہے ہیں۔ ایک بار تو یوں لگا کہ شہر کبھی سوتا ہی نہیں، رات ایک بجے دیکھا، دکانیں کھلی تھیں اور بڑے تو رہے ایک طرف، بچوں سمیت پورے کنبے آئس کریم پارلر میں دھومیں مچا رہے ہیں۔ اس کے بعد یہ قیاس کرنا مشکل نہیں کہ اگلی صبح بازاروں میں سنّاٹا ہوتا ہے، رات دیر تک جاگنے والے پھر لمبی تان کر سوتے ہوں گے۔ تو بات ہو رہی تھی شہر میں آباد برادریوں کے تناسب کی۔ ایک ہمارا زمانہ تھا، کراچی میں پرانے باشندے آباد تھے۔
سندھی، بلوچی ، مکرانی، کچھی، میمن اور بوہری وغیرہ۔ یہ وہ دن تھے جب شہر میں شام کے وقت گجراتی اخبار فروخت ہوا کرتے تھے۔ پھر نقل آبادی کا مرحلہ آیا اور سرحد پار سے ان لوگوں کا سیلاب آیا جنہیں آپ چاہیں تو مہاجر کہہ لیں یا اردو اسپیکنگ کا نام دے دیں۔ اس وقت شہر کی آبادی کا حلیہ بالکل ہی بدل گیا۔ شام کو لوگ نہا دھو کر، دھلا ہوا سفید لباس پہن کر، ہاتھ میں چھڑی لے کر چہل قدمی کے لئے نکلتے تھے یا پھر اس ادا سے الفنسٹن اسٹریٹ پر ٹہلتے تھے جہاں کتنے ہی امروہے والے، میرٹھ والے، مظفر نگر والے، الہ آباد والے، لکھنؤ کی طرف کے اور خالص دلّی کے واقف کار مل جاتے تھے اور دیر تک حال احوال پوچھا جاتا تھا۔ ایرانی ہوٹلوں میں چھ پیسے کی چائے کی پیالی ملتی تھی۔ اس گاڑھی چائے کی شان یہ تھی کہ آدھی پیالی بھری ہوتی تھی جس کے بعد دوسری پیالی کی خواہش نہیں ہوتی تھی۔ بیرا پانچ انگلیوں میں پانی سے بھرے پانچ گلاس لا کر اس زور سے میز پر رکھتا تھا کہ پانی چھلکتا ضرور تھا۔ وہی گلاس جو اگر ٹوٹ جائے تو بیرا گاہک سے بارہ آنے لینے کی صدا لگاتا تھا۔
نیا کراچی بالکل بدل گیا ہے۔ رونق اب بھی ہے مگر اور طرح کی۔ سفید کرتا پاجامہ پہن کر چل قدمی کرنے والی نسل کبھی کی رخصت ہوئی۔ گجراتی اخبار نکلنے بند ہو گئے اور آثار کچھ اور ہی بتا رہے ہیں، وہ یہ کہ اردو ’اسپیکنگ‘ نسل پیچھے رہ جائے گی اور پاکستان کے ہر علاقے اور ہر خطے سے آئے ہوئے لوگ چھا جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں حلیے بدل جائیں گے، لباس بدلیں گے، عادتیں بدلیں گی اور سب سے بڑھ کر زبان کی شکل و صورت میں فرق آئے گا۔ اردو پر دوسری زبانوں کی چھاپ لگے گی اور اس کی نفاست اور شائستگی پہلے جیسی نہیں رہے گی۔ یہ قدرتی عمل ہے۔ خوبیوں کو بچانا بعض حالات میں مشکل ہوتا ہے، تبدیلوں کو قبول کرنا کبھی کبھی مجبوری بن جاتی ہے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔
0 Comments