جب 14 اگست 1947 کو پاکستان بنا تھا تو کراچی کی آبادی ڈھائی لاکھ تھی تب تمام بڑی سڑکیں بندر روڈ، لارنس روڈ خصوصاً روز دھوئی جاتی تھیں۔ کہیں کوڑے کرکٹ کا نشان نہیں نظر آتا تھا پھر ہجرت کر کے آنے والے، جو ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آرہے تھے، جن کے معمولاتِ زندگی مختلف تھے، پھر ہر ایک نے اپنی مرضی اور عادات کے مطابق زندگی کی ابتدا کی پھر تو جگہ جگہ پان کی پیک اور سگریٹ کی ماچس کی خالی ڈبیاں نظر آنے لگیں۔ پھر بتدریج بلدیہ نے بھی سڑکیں دھونا بند کر دیں۔ آبادی کا دبائو شہر پر بڑھتا جا رہا تھا جو آج تک بڑھ ہی رہا ہے۔ اندرون ملک سے ہجرت کرنے والوں کے سبب بھی آبادی بڑھتے بڑھتے تقریباً ڈھائی کروڑ ہو چکی ہے پہلے جو علاقے کراچی سے باہر ہوا کرتے تھے اب وہ بھی وسط کراچی میں آچکے ہیں، اس بڑھتے ہوئے آبادی کے دباو کے سبب ہی ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں میں احساسِ محرومی نے جنم لیا جس کے ردِعمل کے طور پر مہاجر خصوصاً اردو بولنے والوں نے اپنے شہری حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لئے ایک جماعت تشکیل دی۔
اس سیاسی جماعت کی تشکیل میں ضیاء الحق کا بڑا اہم حصہ تھا لیکن اکابرینِ مہاجر قومی مومنٹ اتنی اہم اور بڑی ذمہ داری کو سنبھال نہیں سکے۔ اُن کے دشمنوں نے اُنہیں غیر محسوس طریقے سے بہلا پھسلا کر گمراہ کر دیا، جس مقصد کے لیے جماعت بنائی گی تھی وہ کہیں بہت پیچھے رہ گیا۔ پھر نام بھی بدل کر مہاجر سے متحدہ کر دیا گیا جبکہ کراچی کے عوام کو اُن سے بڑی توقعات تھیں۔ اُنہوں نے بڑی حد تک کوشش تو کی لیکن وہ سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اُن کے غبارے کو پنچر کر دیا گیا۔ ہر بلندی را پستی کے مصداق اُن کا زوال شروع ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد اس جماعت نے پھر اپنی سرگرمیاں تیز کر لیں لیکن اس کے باوجود بلدیاتی نظام آج بھی ان کے ہی پاس ہے لیکن کراچی بدحال ہے۔ سندھ میں اپنی اکثریت کھونے کے بعد اگر وہ سیاسی مصلحت سے کام لے کر شہر کے مسائل حل کرتے اور اپنے ووٹر کو عزت دیتے تو بھی اُن کی حیثیت مضبوط رہتی لیکن اس کی جگہ سندھ کی حکمران جماعت سے مسلسل ٹسل چلا رکھی ہے۔
دو بڑے ہاتھیوں کی لڑائی میں کراچی کا بیڑا غرق ہو رہا ہے۔ سیاسی کھینچا تانی نے کراچی کو تباہی کے دہانے پر پہنچ دیا ہے۔ کچھ ہی دن جاتے ہیں کہ ملک کو سب سے زیادہ آمدنی مہیا کرنے والا شہر کراچی کسی کھنڈر کا نمونہ بن جائے گا۔ وفاق ہو یا صوبہ دونوں کے درمیان کراچی پس کر رہ گیا ہے۔ وفاقی حکومت جو تحریک انصاف کی ہے اس نے بھی کراچی کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور کرنے کو شاید تیار بھی نہیں ہے۔ کراچی بےچارہ جائے تو کہاں جائے۔ تحریک انصاف شاید اس لئے کراچی کو نظر انداز کر رہی ہے کہ اُنہیں کراچی سے اُن کی توقع کے مطابق کامیابی نہیں مل سکی۔ رہی پیپلز پارٹی تو اُسے بھی شکوہ ہے کہ سندھ کے اہم شہروں سے اُنہیں اُن کی مرضی کی کامیابی کیوں نہیں مل سکی۔ اس کا بھی سارا ملبہ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم نہ پیپلزپارٹی ایک دوسرے سے تعاون کرنے کو تیار نہیں ہیں یوں ان دو ہاتھیوں کی رسہ کشی میں کراچی بدحال ہوتا جا رہا ہے۔
کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پھر ویسے ہی حالات پیدا نہیں کیے جا رہے جن سے خصوصاً کراچی والوں میں پھر احساسِ محرومی پیدا رہا ہے۔ اللہ نہ کرے کہ احساسِ محرومی پھر جنم لے اور کوئی ایسی سیاسی جماعت پیدا کی جائے۔ تحریک انصاف کو چاہئے کہ وہ کراچی کے ساتھ انصاف کرے۔ کم از کم اپنے نام کی تو لاج رکھے۔ میں نے ایک موقع پر صدر مملکت کی توجہ کراچی کےمسائل پر دلائی تھی کہ آپ کراچی سےمنتخب ہو کر یہاں آئے ہیں آپ کو تو کراچی کا خصوصی خیال کرنا چاہئے تو انہوں نے فرمایا تھا میں کراچی کا نہیں پورے پاکستان کا صدر ہوں اس کے بعد کیا جواز رہ جاتا ہے کہ کوئی کسی بھی طرح کراچی کا مقدمہ کہیں پیش کر سکے۔ دراصل کراچی تین سیاسی ہاتھیوں کے درمیان پھنس کر رہ گیا ہے۔ ایم کیو ایم جو کراچی پر صرف اپنا حق سمجھتی ہے، پیپلز پارٹی جو ناصرف کراچی پر بلکہ پورے سندھ پر اپنا حق سمجھتی ہے، تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ صرف وہی پورے پاکستان پر حکومت کا ہر طرح کا حق رکھتی ہے وہی صرف پاکستان کے ہر طرح کے سیاہ و سفید کی مالک ہے۔ وہ جو چاہے کرے جو ناچاہے ناکرے، کسی کو اعترض کا کوئی حق نہیں۔
تحریک انصاف نے اگر کچھ جماعتوں کو حکومت سازی کے لیے اپنے ساتھ شامل کر لیا ہے تو وہ اُن کے مسائل بھی حل کرے۔ تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ حکومت صرف اور صرف تحریک انصاف کی ہے۔ اس کی مرضی کسی حلیف کے کام آئے یا نہ آئے وہ تو پوری طرح عوام کے بھی کام نہیں آرہی کیونکہ عوام نے تحریک انصاف کو اس قدر کامیابی نہیں دلائی جس قدر اسے عوام سے توقع تھی۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے تحریک انصاف کے مقابلے میں جو اور جس قدر کامیابی حاصل کی ہے وہ دراصل تحریک انصاف کو پسند نہیں آئی جو کچھ جیسی بھی حکومت تحریک انصاف کوملی وہ اس سے پوری طرح مطمئن نہیں ہے کیونکہ اتحادیوں کے اتحاد سے خطرہ رہتا ہے جانے کب پانسہ پلٹ جائے۔ یہ امر قابل افسوس ہے کہ انتظامی سیاست نہیں کی جارہی، تمام اہلِ سیاست سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ کراچی کو معاف کر دیں اور اپنے اختلافات بھلا کر کراچی کے مسائل پر توجہ دیں تو بڑی مہربانی ہو گی۔ اللہ ہمارے شہر کراچی اور وطن عزیز کی حفاظت فرمائے، آمین!
0 Comments