Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی جدید انفراسٹرکچر کا منتظر ہے

کراچی کے علاقے کیماڑی میں پراسرار زہریلی گیس کیا پھیلی کہ تمام متعلقہ محکمے شدید شش وپنج میں پڑ گئے۔ بلکہ بندر کے ہاتھ ناریل لگ گیا۔ کوئی ماہر مستند رائے اور مکمل تحقیقات نہیں دے سکا، وفاق یا سندھ حکومت کی طرف سے کوئی اتھارٹی تحقیقاتی عمل کے ذریعے زہریلی گیس پرکوئی حتمی بات کہنے کی پوزیشن میں نہیں تھی، دو روز تک گیند کبھی ایک ادارے کی کورٹ میں چلی جاتی یا پھر دوسرے محکمے محتاط تھے ، گیس کی لیکیج کے حوالہ سے اس کی ’’جورسڈکشن‘‘ پر بحث شروع کر چکے ہیں جب کہ اس غیر معمولی سانحہ کا تعلق انسانی صحت، ناگہانی آفت یا بے نام سے وائرس کی فوری تحقیقات اور تشخیص سے تھا تاہم ناتجربہ کاری اور لاعلمی سے مربوط انفراسٹرکچر کا پورا میکنزم بے نقاب ہو گیا ، یوں زہریلی گیس سے مزید 7 افراد جاں بحق ہو گئے۔

میڈیا کے مطابق اب تک جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 14 ہو گئی ہے، بندرگاہ کے اطراف زہریلی گیس کے اخراج کا معاملہ مزید شدت اختیار کر گیا، صورتحال کے پیش نظر مسلح افواج کے کیمیائی و جوہری ماہرین کیماڑی پہنچ گئے جو پراسرار گیس کے اخراج اور اس کی ہولناکی کی وجہ معلوم کریں گے۔ بتایا جاتا ہے پورٹ پر واقع پٹرولیم مصنوعات ذخیرہ کرنے کی تنصیبات پر مامور عملہ بھی زہریلی گیس کا شکار ہو گیا، ہلاک شدگان کے خون کے نمونے حاصل کیے گئے۔ حفاظتی اقدام کے تحت کیماڑی کے مختلف مقامات کے بیشتر مکینوں نے عارضی نقل مکانی شروع کر دی جب کہ ان علاقوں میں تعلیمی ادارے بھی بند ہیں، جامعہ کراچی نے زہریلی گیس پھیلنے کے معاملے پر رپورٹ تیار کر کے کمشنرکراچی کو ارسال کر دی جس کے مطابق ہلاک افراد کے خون کے نمونوں میں سویابین دھول کا انکشاف ہوا ہے۔ 

آل پاکستان سالوینٹ ایکسٹریکٹرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ گیس کا اخراج سویا بین سے لدے بحری جہاز سے نہیں ہوا، دوسری جانب کراچی پورٹ ٹرسٹ اور ملحقہ علاقے میں قائم نجی وسرکاری اداروں کی تجارتی سرگرمیاں ماحولیاتی قواعد پر عمل کے بغیر چلائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ کیماڑی کے علاقے مسان روڈ پر زہریلی گیس کے اخراج پر مکینوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا، بدترین ٹریفک جام ہونے سے ٹاور اور کوئینز روڈ پر گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں، متاثرہ افراد کے اہل خانہ ایم اے جناح روڈ پر نکل آئے۔ علاقے کے مکین شدید خوف میں مبتلا ہیں، کیماڑی کے بعد سلطان آباد، اولڈ ایریا اور ریلوے کالونی کے مکینوں نے بھی گلے میں خراش کی شکایت کی ہے۔ ادھر پاک بحریہ نے دوبارہ کسٹم بلڈنگ کا معائنہ کیا۔ زہریلی گیس سے جاں بحق ہونے والوں میں دو کا پوسٹ مارٹم کرا لیا گیا ہے۔ 

کیماڑی، منوڑہ میں کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے، بابا بھٹ آئی لینڈ کی آبادی بھی محصور ہو گئی ، شہر سے تفریح کے لیے جانے والوں نے منوڑہ آنا چھوڑ دیا ہے۔ ادھر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ کیماڑی گیس کا ماحولیات سے کوئی تعلق نہیں، کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ واقعے کی اصل وجہ سامنے نہیں آسکی، کراچی کے ماحولیات کی صورتحال جیسی بھی ہو کیماڑی واقعہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں، امکان یہ ہی ہے یہ واقعہ مقامی سطح پر عوامل کی وجہ سے پیش آیا، ماہرین صحت نے شہریوں کو ماسک استعمال کرنے اور متاثرہ علاقے کے رہائشیوں کو کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ادارہ تحفظ ماحولیات سندھ نے کیماڑی اور اطراف کے علاقوں میں پراسرار زہریلی گیس اور اس کے نتیجے میں جانی نقصانات کے اسباب جاننے کے لیے بڑے ماحولیاتی ٹیسٹ کا آغاز کر دیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ادارہ کے مضر اثرات کا پتا لگانے والے آلات بھی غیر موثر اور ناکارہ ہو گئے ، ادھر وفاقی وزیر امور بحری امور علی زیدی نے میڈیا کو بتایا کہ کیماڑی میں متاثرہ افراد کی وفاقی حکومت ہر ممکن مدد کرے گی، کے پی ٹی سمیت تمام ادارے باہمی رابطے میں ہیں۔ عجیب افراتفری ہے کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ پر دنیا بھر سے مختلف کیمیکل مصنوعات ، اجناس اور دیگر اشیا بندر گاہ پر ان لوڈ ہوتی ہیں مگر کے پی ٹی کی حساس رہائشی حدود میں زہریلی گیس پر کسی قسم کا کوئی تفتیشی، تحقیقاتی اور انسدادی میکنزم دستیاب نہیں، جن ذرائع نے سویابین ڈسٹ کی بازیافت کی اسے ایک طبی حلقے نے نامعتبر قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا، ملک کے معروف سائنسدان ڈاکٹر عطا الرحمن نے سویابین سے لدے جہاز کو بندرگارہ سے 16 کلومیٹر دور کھلے سمندر میں رکھنے کی تجویز دی ہے، تاہم اطلاع یہ ہے کہ جہاز بن قاسم بندر گاہ کی طرف بھیجا گیا ہے۔

فوکل پرسن محکمہ صحت سندھ ڈاکٹر ظفر مہدی کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد کے لیے گئے خون کے نمونوں کی جانچ پڑتال مکمل کر لی گئی، سویا بین ڈسٹ کا وائرس 2 سال قبل اسپین میں بھی پھیل چکا ہے، صورتحال دیکھتے ہوئے پی ایس او نے کراچی کیماڑی میں اپنے اسٹوریج ٹرمنل کو عارضی طور پر بند کر دیا، بعد ازاں دیگر نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے بھی ایندھن ذخیرہ کرنے کی تنصیبات کو عارضی طور پر بند کر دیا جس سے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی ترسیل متاثر ہونے کا خدشہ ہے، اس بارے میں پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ قدم عملے کی حفاظت اور صحت کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے۔ اس عارضی عمل سے پٹرولیم مصنوعات کی 24 گھنٹے فراہمی ہرگز متاثر نہیں ہو گی۔ سماجی کارکنوں نے بتایا کہ مختلف مقامات پر تین روز سے گیس کی بو اور اس کے اثرات وقفہ وقفہ سے تاحال فضا میں موجود ہیں، بیشتر مکینوں نے عارضی نقل مکانی شروع کردی ہے۔

ائیر کوالٹی انڈیکس کے مطابق شہر کی فضاؤں میں زہریلے ذرات کی مقدار 129 ہو گئی ہے، محکمہ موسمیات نے ائیر کولٹی اشاریے کے جاری اعداد وشمار کو مفروضہ قراردیتے ہوئے کہا کہ شہری ماحول مزید آلودہ ہو چکا ہے، جب کہ عالمی انڈیکس کے تحت کراچی کو دنیا کے 14 آلودہ شہروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ یاد رہے کراچی میں بحری آلودگی، شور اور فضائی آلودگی نے شہریوں کی صحت کو شدید متاثر کیا ہے، شہر قائد میں کچرے کے انبار لگے ہیں، شہر کا سب سے بڑا کاروباری مرکز صدر سیوریج کے گندے پانی کے سیلاب میں ڈوب گیا ہے۔ وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایک ہفتے میں کراچی کاسارا کوڑا ٹھکانے لگا دیں گے، اس سوال پر سندھ حکومت نے اسے سیاسی شوشہ قرار دیتے ہوئے در جواب آں غزل کے طورپر دعویٰ کیا کہ سندھ حکومت کراچی کو کچرے سے پاک کر دے گی لیکن کراچی میں صحت اور صفائی کی صورتحال بدستور ابتر ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ وفاقی ، صوبائی اور ضلعی حکومتیں کراچی کو درپیش مسائل کے حل کی کوششوں کو نتیجہ خیز بنائیں۔ اس شہر کو ایک مضبوط و پائیدار انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز
 

Post a Comment

0 Comments