کراچی میں ہفتے بھر سے جاری طوفانی بارشوں نے قیامت صغریٰ برپا کر رکھی ہے۔ مکانات کی چھتیں، دیواریں نیز آسمانی بجلی گرنے اور کرنٹ لگنے سے کئی افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ شہر کے ساتوں انڈر پاس بند ہو گئے اور سیلابی ریلوں میں دیوہیکل ٹینکر تک بےوقعت تنکوں کی طرح بہہ رہے ہیں۔ ہزاروں گھرانے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ شہر کے انتہائی پوش علاقے بھی سیلابی کیفیت کی زد میں ہیں۔ شہر کے بعض حصوں میں باقاعدہ کشتیاں چلنا شروع ہو گئی ہیں۔ بجلی کا گھنٹوں جاری رہنے والا تعطل نظام زندگی کو مزید مفلوج کر دینے کا باعث بنا ہوا ہے۔ حب ڈیم کے مکمل بھرجانے کے بعد اس سے پانی کا اخراج شروع ہو گیا ہے۔ حیدرآباد، سکھر، نوابشاہ، میر پور خاص، ڈگری، تلہار، خیر پور، پنو عاقل، باڈہ، جھڈو، ٹنڈوالہ یار اور جیکب آباد سمیت صوبے کے دوسرے شہروں میں بھی طوفانی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کے بقول کراچی سمیت صوبے کے آٹھ اضلاع کو آفت زدہ قرار دینے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ اس سال ہونے والی بارشیں غیرمعمولی ہیں اور ان سے پچھلے کئی عشروں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ تاہم ان کے نتیجے میں جتنے بڑے پیمانے پر نقصانات ہو رہے ہیں اور جیسی افرتفری مچی ہوئی ہے اس کا اصل سبب یہ ہے کہ شہر میں معمول کی بارشوں سے نمٹنے کا بھی کوئی بندوبست نہیں تھا۔ محکمہ موسمیات کئی مہینوں سے متنبہ کر رہا تھا کہ اس سال مون سون کے موسم میں ریکاڈ توڑ بارشیں ہوں گی اس کے باوجود پانی کی نکاسی کے معمول کے انتظامات بھی نہیں کیے جا سکے حتیٰ کہ پچھلے دو برسوں سے برساتی نالوں کی صفائی تک نہیں کرائی گئی تھی۔ میئر کراچی نے اپنی پوری مدت پیسے اور اختیار نہ ہونے کا رونا روتے گزار دی جس پر محترم چیف جسٹس نے یہ برمحل ریمارکس دیے کہ اگر پیسہ تھا نہ اختیار تو عہدے سے چمٹے رہنا کیا ضروری تھا جبکہ اس پورے عرصے میں صوبائی حکومت اسی موقف پر ڈٹی رہی کہ یہ کام اس کے کرنے کا نہیں۔
وفاقی حکومت نے بھی کراچی کی صورت حال سے خود کو عملاً لاتعلق کیے رکھا۔ یوں حکومتوں اور متعلقہ ذمہ داروں کی کج بحثیوں اور الزام تراشیوں کے مشغلے میں سارا وقت گزر گیا اور جب خطرہ سر پر آپہنچا تو بارشوں کا سلسلہ شروع ہونے سے محض چند روز پہلے وزیراعظم کی نظر کرم سے این ڈی ایم اے (نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی) کی خدمات اہلِ کراچی کو حاصل ہوئیں جس کے بعد چند روز میں ہزاروں ٹن کچرا برساتی نالوں سے نکالا گیا۔ ایسا نہ ہوتا تو پورے شہر کا مکمل طور پر غرق ہو جانا یقینی تھا لیکن یہی کام دوچار ہفتے پہلے سے شروع ہو جاتا تو تباہی کا تناسب یقیناً کہیں کم ہوتا۔ ملک کے اقتصادی مرکز کے حالِ زار سے اس چشم پوشی اور منی پاکستان کے معاملے میں اس شدید کوتاہی کی ذمہ داری تمام سطحوں کی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ صوبے کے دیگر شہروں اور دیہی علاقوں میں بھی حالیہ بارشوں سے ہونے والی تباہی کی اصل وجہ شہری سہولتوں کا یہی فقدان ہے۔
وزیراعظم نے گزشتہ روز اپنے ایک ٹوئٹر بیان میں کہا ہے کہ وہ کراچی کے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے اور نالوں کی صفائی، نکاسی آب کے نظام کی اصلاح اور پانی کی فراہمی جیسے چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے منصوبے کا اعلان کریں گے۔ یہ منصوبہ تو جب آئے گا تب ہی اس پر کچھ کہا جاسکے گا تاہم یہ بات آج بھی پورے اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ دنیا کے تمام میٹرو پولیٹن شہروں کی طرح کراچی کے مسائل کا مستقل حل بھی عوام کی آزاد مرضی سے منصفانہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی بااختیار مقامی حکومت ہے جس کا تجربہ کراچی میں جب بھی ہوا کامیاب رہا کیونکہ اس میں عوام کو اپنے مسائل خود حل کرنے کا اختیار مل جاتا ہے اور منتخب کونسلر چوبیس گھنٹے ان کی دسترس میں ہوتے ہیں لہٰذا شہری حکومت کی بحالی کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں کہ شہر ی مسائل یہی مستقل حل ہے۔
0 Comments