کراچی میں ہر قومیت اور مذہب کے لوگ کام کر رہے ہیں‘ یہ شہر سب کو پناہ دیتا ہے‘ ہر کسی کو اپنا بنا لیتا ہے۔ حالیہ دنوں میں جب بارشوں نے وہاں تباہی مچائی تو میں اسلام آباد میں پوری رات سو نہیں سکی‘ بار بار آنکھیں آنسوئوں سے بھیگتی رہیں۔ فون میں جتنے لوگوں کے نام کے آگے 'کراچی‘ لکھا تھا‘ سب کو محفوظ رہنے کی دعا بھیج دی۔ جب جواباً ان کی طرف سے کراچی کی بارش کی وڈیوز آئی تو دل خون کے آنسو رویا۔ ایک سہیلی کے گھر سیوریج کا پانی آ گیا‘ اس کا میسج آیا: جویریہ گھر میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں میں نماز پڑھ سکوں۔ کیا فائدہ پوش علاقے میں رہنے کا جب یہاں پر نکاسیٔ آب کا نظام ہی درست نہیں ہے۔ اتنی محنت سے انہوں نے یہ آشیانہ بنایا اور سیوریج کا پانی ان کے گھر‘ ان کے فرنیچر‘ ضرورت کے ہر سامان کو تباہ کر گیا۔ ہر طرف بدبودار پانی‘ ہر جگہ ناپاک ہو گئی۔ ابھی ان کو تسلی دے رہی تھی کہ کراچی سے ایک کولیگ کا میسج آیا کہ پورے گرائونڈ فلور پر پانی ہے‘ کچن، ڈارئنگ روم، بیڈ روم اور لائونج سب خراب ہو گئے۔ میرے بچے بھی پانی کے ریلے کی وجہ سے زخمی ہو گئے۔ ہم بجلی بند کر کے موم بتی جلا کر بارش تھمنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جب بارش رکے گی تو بچوں کی مرہم پٹی کروانے جائیں گے‘ پھر نقصان کا جائزہ لیں گے کہ گرائونڈ فلور پر کتنے لاکھوں کا نقصان ہوا۔
پہلے ساون آتا تھا‘ پکوان تیار ہوتے تھے‘ ڈالیوں پر جھولے لگا دیے جاتے تھے‘ بچے گلیوں میں کھیلتے تھے اور اب... ''جب بارش ہوتی ہے تو پانی آتا ہے اور جب زیادہ بارش ہو تو زیادہ پانی آتا ہے‘‘۔ کراچی میں شدید بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور علاقے تالاب اور نالوں کا منظر پیش کرنے لگے ہیں۔ سڑکیں دریائوں میں تبدیل ہو گئیں، گھروں میں پانی داخل ہو گیا، شہری محصور ہو گئے، جو کاروباری مراکز اور دفاتر میں تھے‘ وہ پھنس کر رہ گئے۔ فیڈرل بی ایریا، گزری، کیماڑی، نرسری، گلشن اقبال، لیاری، شاہ فیصل کالونی، بفر زون، ناگن چورنگی، صدر، کھارادر، کورنگی، ڈی ایچ اے، ملیر، سرجانی ٹائون، ناظم آباد، یونیورسٹی روڈ، لیاقت آباد، گولی مار، محمود آباد، گلشن جوہر سمیت شاید ہی کوئی علاقہ ہو جو متاثر نہ ہوا ہو۔ غریب عوام تنکا تنکا جوڑ کر گھر بناتے یا فرنیچر و گاڑی وغیرہ لیتے ہیں اور ایک بارش اور بدانتظامی ان کو کنگال کر جاتی ہے۔
اسلام آباد میں بارش ہوتی ہے تو کبھی پانی جمع نہیں ہوتا کیونکہ ہر سیکٹر میں قدرتی نالے موجود ہیں‘ ان کو انتظامیہ باقاعدگی سے صاف کرواتی ہے۔ کبھی درخت وغیرہ گر جائے یا پرنالا ٹوٹ جائے تو وہ الگ بات ہے۔ میرے اپنے ساتھ ایسا ہو چکا ہے؛ میرے گھر کا درخت ایک طوفان کی وجہ سے گر گیا جس سے گاڑی اور دیوار کو نقصان پہنچا۔ اس کے ساتھ دوسری منزل کے ٹیرس کے پائپ میں کچھ پھنس گیا اور تیز پانی کا ریلا گھر میں آ گیا۔ بہن نے حاضر دماغی کا ثبوت دیتے ہوئے پرنالا باہر کی طرف کھول دیا اور یوں گھر میں پانی آنا رک گیا۔ گلی میں مدیحہ اور اسد بھائی کے بچے بہت صالح اور فرمانبردار ہیں‘ وہ بھی شدید بارش میں مدد کے لئے آ گئے اور چند منٹوں میں گھر ٹھیک کر دیا۔ جب ہم نے نقصانات کا تخمینہ لگایا تو صرف دس منٹ میں دو کارپٹ، میرے جوتوں کا ریک اور لیمپ خراب ہو گئے، موٹر جل گئی اور جہاں جہاں سے پانی گزرا‘ وہاں وہاں سے پینٹ اکھڑ گیا۔
اس کے علاوہ چند دن تک گھر سے پانی کی بُو بھی آتی رہی حالانکہ یہ پانی بالکل صاف تھا۔ میں نے ان دس منٹ میں جو بے بسی محسوس کی‘ وہ ناقابلِ بیان ہے۔ میری بلی سکیپو اتنی خوفزدہ ہوئی کہ مجھے رو رو کر کچھ بتاتی رہی۔ میں اس کو تسلی دیتی رہی کہ ہم محفوظ ہیں‘ اللہ کا شکر ہے۔ ان دس منٹوں اور کراچی کی 48 گھنٹے کی مسلسل موسلا دھار بارش میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن اس دس منٹوں کی تکلیف اور بعد میں ہونے والے نقصان کی وجہ سے مجھے معلوم ہے کہ کراچی کے عوام پر کیا بیت رہی ہے۔ پانی کیسے زحمت بن کر گھروں‘ دکانوں اور کاروباری مراکز میں داخل ہوتا ہے‘ اس کی بڑی وجہ کراچی کے نالوں پر ناجائز تجاوزات ہیں۔ پھر ان کی مستقل بنیادوں پر صفائی بھی نہیں ہو پاتی۔ کراچی کا کچرا ہو، محکمانہ بدانتظامی ہو، کرنٹ لگنے سے اموات کا معاملہ ہو، ہیٹ ویو آ جائے یا لوگ ڈوب جائیں‘ ہر چیز پر سیاست شروع ہو جاتی ہے۔
خوب بیان بازی ہوتی ہے‘ مگرمچھ کے آنسو بہائے جاتے ہیں‘ پریس کانفرنسیں ہوتی ہیں‘ اس کے بعد سب کچھ پہلے جیسا ہو جاتا ہے۔ قوموں کی زندگی میں سانحات ہوتے رہتے ہیں مگر زندہ قوموں میں بات صرف بیانات تک نہیں رہتی۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی کراچی کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ کراچی کے لوگ بارشوں سے برباد ہو رہے ہیں اور پیپلز پارٹی حکومت سوشل میڈیا پر سب اچھا کا نعرہ لگا رہی ہے۔ ایک طرف عوام پانی میں ڈوبے گھروں اور سڑکوں کی تصاویر لگا رہے ہیں تو دوسری طرف سعید غنی خشک سڑکوں کی وڈیوز پوسٹ کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ تو انہیں کہتے بھی رہے کہ کہ ذرا دائیں‘ بائیں ٹرن لیں اور علاقوں کا دورہ کریں‘ آپ کو اصل صورتحال نظر آئے گی۔ کراچی میں اس وقت سیلابی صورتحال ہے اور گجر نالا، ملیر ندی ایک بار پھر اوور فلو کر گئے ہیں۔ سیلابی ریلا سندھ ہائیکورٹ میں بھی داخل ہو گیا جس سے وہاں موجود سائلین اور عدالتی عملے کو دقت پیش آئی۔ چند نوجوان شہریوں کو بچاتے ہوئے ملیر ندی میں ڈوب گئے۔ کہیں پانی بیٹیوں کا جہیز تباہ کر گیا تو کہیں غریب کا آشیانہ تنکوں کی طرح سیلابی پانی کی نذر ہو گیا۔
فوج، رینجرز، ایدھی، الخدمت فائونڈیشن اور دیگر کچھ تنظیموں نے امدادی کارروائیاں کیں تو شہریوں کے دکھوں کا کچھ مداوا ہوا لیکن سوال یہ ہے کہ کراچی کی شہری حکومت کہاں ہے؟ بلدیہ عظمیٰ اور انتظامیہ کہاں ہیں؟ اربوں روپے کا زرمبادلہ دینے والے شہر میں ایسا کوئی انتظام نہیں کہ بارشوں سے پہلے ندی نالوں کی صفائی ہو جائے اور ان ندی نالوں سے ناجائز تجاوزات کا خاتمہ ہو جائے؟ جو لوگ ندی نالوں پر رہائش پذیر ہیں‘ حکومت ان کو متبادل جگہ فراہم کرے۔ شہری انتظامیہ روز شہریوں سے کچرا اکٹھا کر کے اس کو تلف کرے۔ اسلام آباد میں ایم سی آئی انتظامیہ مون سون بارش سے کہیں دن پہلے تیاری شروع کر دیتی ہے‘ نالے صاف کیے جاتے ہیں تاکہ بارش کی صورت میں پانی کا بہائو متاثر نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ بارش کے دوران بھی کام جاری رہتا ہے‘ کوئی سائن بورڈ یا درخت گر جائے تو اس کو فوری طور پر ہٹا کر راستہ کلیئر کیا جاتا ہے۔
اسی طرح کراچی کو بھی فعال شہری انتظامیہ کی ضرورت ہے۔ اربن فلڈنگ کی بڑی وجہ کچرا اور ندی نالوں پر تجاوزات ہیں‘ اس سے پانی کو راستہ نہیں ملتا اور وہ آبادیوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب شہری خود بھی لائحہ عمل ترتیب دیں کہ انہوں نے بارش میں خود کو کیسے بچانا ہے۔ اگر گھر میں پانی داخل ہو جائے تو بجلی کا مین سوئچ بند کر کے بالائی منزل پر چلے جائیں۔ یاد رکھیں! آپ کی جان سب سے زیادہ قیمتی ہے۔ کوشش کریں کہ اگر سیلاب کی پیشگوئی ہے تو نشیبی علاقے سے رشتہ داروں کے پاس کسی ایسے علاقے میں چلے جائیں جہاں بارش سے نقصان کا اندیشہ نہ ہو۔ بوسیدہ عمارتوں، درختوں، سائن بورڈز اور کھمبوں سے دور رہیں۔ بارشوں سے پہلے چھت یا دیواروں کی لیکج، ڈرینج سسٹم اور گٹر وغیرہ ضرور چیک کروائیں۔ اگر محکمۂ موسمیات طوفانی بارش کی پیشگوئی کرے تو مناسب خوراک، اشیا خور و نوش، ادویات اور پینے کے صاف پانی کا ذخیرہ کر لیں۔ برسات کے دوران لوڈشیڈنگ بھی ہو سکتی ہے لہٰذا گھر میں ٹارچ‘ سیل‘ بیٹری اور موم بتیاں لازماً ہونی چاہئیں۔
دورانِ بارش ڈرائیونگ سے گریز کریں۔ برسات میں ہیضہ‘ نزلہ زکام اور اسہال کا خدشہ رہتا ہے‘ ان سے بچنے کا واحد حل حفظانِ صحت کے اصولوں پر کاربند رہنا ہے۔ کراچی کے مجرم وہ سب ہیں جنہوں نے گزشتہ تیس سال یہاں حکمرانی کی‘ ان سب کو کٹہرے میں لایا جانا چاہئے اور پوچھا جانا چاہئے کہ تم سب زمین سے آسمان پر پہنچ گئے اور کراچی کو کنگال کر گئے۔ جہاں کی سڑکیں ہر روز دھلتی تھیں‘ جو شہر پیرس جتنا خوبصورت تھا‘ وہاں سیلاب، کچرا، گندگی، لوڈشیڈنگ، ٹریفک جام اور بیماریوں کا راج کیوں ہے؟ اگر وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کراچی کے انتظامی معاملات پر ایسے ہی غفلت دکھاتی رہیں تو پھر میرا ہمدردانہ مشورہ یہی ہے کہ کراچی کے شہری تیراکی سیکھیں اور گھر پر ایک کشتی اور لائف جیکٹ خرید کر رکھ لیں کیونکہ... جاگتے رہنا حکومتوں پر مت رہنا۔
0 Comments