Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی کو مزید تباہی سے بچائیں

معمولی بارشوں سے کراچی نہ صرف آفت زدہ شہر بن جاتا ہے بلکہ یہاں ایک ہی دن میں انسانی المیوں کی ان گنت داستانیں جنم لیتی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کراچی کو ایک منصوبہ بندی کے تحت برباد کیا گیا اور اب یہ شہر قابل انتظام نہیں رہا۔ شہر کو مشکلات اور مصائب سے بچانے کے لیے بربادی کے اس عمل کو نہ صرف روکنا بلکہ پلٹنا ہو گا۔ یہ کیسے ممکن ہو گا ؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے کراچی کے جغرافیہ کو سمجھنا ہو گا۔ اس کے بعد کراچی پر کی جانے والی سیاست کا مختصرا َجائزہ لینا ہو گا اور پھر حل تجویز کرنا ہو گا۔ جغرافیائی طور پر کراچی شہر ان علاقوں میں آباد ہے، جہاں کیرتھر پہاڑی سلسلہ بحیرہ عرب میں آکر گرتا ہے۔ اس سلسلے کی بڑی بڑی پہاڑیاں کراچی کو گھیرے ہوئے ہیں۔ ان میں وسطی اور ملیر سے بلوچستان کے ضلع لسبیلہ تک پھیلی ہوئی منگھوپیر کی پہاڑیاں، اورنگی ٹاؤن، نارتھ ناظم آباد تک پھیلی خاصہ پہاڑیاں اور گلشن اقبال اور گلستان جوہر میں پھیلی ملٹری پہاڑیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کئی بڑی پہاڑیاں اس شہر میں موجود ہیں۔

کراچی کوہ سلیمان اور کیرتھر سلسلے کے آخری سرے پر واقع ہے۔ بلوچستان اور سندھ میں پھیلے اس سلسلے میں برسات اور سیلاب کے پانی کی نکاسی کے لیے کئی دریا، ندیاں، نالے اور آبی گزرگاہیں قدرتی طور پر موجود ہیں۔ کراچی اور ارد گرد کے پہاڑی علاقوں کے پانی کی نکاسی کے لیے دریائے حب، دریائے گاج، دریائے ملیر اور دریائے لیاری کے علاوہ بے شمار ندیاں، نالے اور آبی گزرگاہیں صدیوں سے موجود ہیں۔ بارش نہ ہو تو یہ دریا، ندیاں، نالے اور گزرگاہیں خشک رہتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر پورا سال کراچی کے سیوریج کے پانی کو سمندر میں لے جاتے ہیں۔ اس طرح سمندر بھی گندا ہو رہا ہے۔ بارشوں میں یہ دریا، ندیاں، آبی گزرگاہیں اور نالے پانی کے قدرتی بہاؤ کے راستے ہیں اور ان میں طغیانی آجاتی ہے۔ کراچی کے اس جغرافیائی محل و قوع کو سمجھنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پانی کے قدرتی بہاؤ کے آگے رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی تو پانی دوسرے راستے اختیار کرے گا۔ 

یہی وجہ ہے کہ بارشوں میں شہر ڈوب جاتا ہے ۔ شاہراہیں اور سڑکیں پانی میں غائب ہو جاتی ہیں اور نشیبی علاقوں کی انسانی آبادیاں زیر آب آجاتی ہیں۔ دریاؤں، ندیوں اور نالوں میں طغیانی میں لوگ ڈوب جاتے ہیں اور ان کی لاشیں تک نہیں ملتی ہیں۔ کرنٹ لگنے سے بڑے پیمانے پر اموات ہوتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ زندگی مفلوج ہو جاتی ہے اور جو جہاں ہے، وہیں قید ہو جاتا ہے۔ لوگ شاہراہوں پر اپنی گاڑیاں پانی میں تیرتی ہوئی چھوڑ کر پناہ گاہیں تلاش کرتے ہیں۔ گھروں میں پانی داخل ہونے سے مکین اپنے ہی گھر میں بے گھر ہو جاتے ہیں۔
قیام پاکستان سے پہلے ہی کراچی کی سیاست اور معیشت پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بیرونی اور داخلی قوتیں سرگرم تھیں اور اب یہ کشمکش بہت پیچیدہ ہو چکی ہے۔ کراچی اس خطے کا خوش حال ترین اور خوبصورت ترین شہر تھا۔ 1970ء کے عشرے تک اس شہر کی فی کس آمدنی جنوبی ایشیاء کے تمام شہروں سے زیادہ تھی۔ کراچی کو قیام پاکستان کے بعد اپنے تسلط میں لانے کی جنگ نہ صرف تیز ہوئی بلکہ کراچی سے پاکستان کی سیاست کو کنٹرول کیا گیا۔ 

گزشتہ چار عشروں سے کراچی تختہ مشق بنا ہوا ہے۔ کراچی کی زمینیں نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کی مہنگی ترین رئیل اسٹیٹ میں شمار ہوتی ہے۔ کراچی نہ صرف زمین پر افقی طور پر قیمتی ہے بلکہ عمودی طور پر بھی بہت مہنگا ہے۔ کراچی کی نہ صرف میدانی زمینوں پر قبضہ کیا گیا بلکہ دریاؤں، ندیوں، نالوں اور آبی گزرگاہوں پر بھی قبضے کر لیے گئے اور وہاں انسانی آبادیاں قائم کر دی گئیں۔ زمینوں پر قبضے کرانے والی مافیاز نے کھربوں روپے کمائے۔ اس کے ساتھ ساتھ عمودی طور پر کراچی کو گنجان بنانے کے لیے بلند و بالا عمارتوں کے اجازت نامے جاری کر کے کھربوں روپے بٹورے گئے۔ بغیر اجازت بھی تعمیرات جاری ہیں۔ پسماندہ اور غریب لوگوں کی گنجان آبادیوں اور کچی آبادیوں میں کراچی تبدیل ہو گیا ہے ۔ اربن فلڈنگ سے پوش علاقے بھی محفوظ نہیں رہے۔ کراچی پر کنٹرول کچھ غیر مرئی قوتوں کا ہے، جو کبھی دہشت گردی اور کبھی کراچی کے مسائل کو جواز بنا کر اپنا کنٹرول برقرار رکھتی ہیں۔ وہ سیاسی قوتوں کو دکھاوے کا کنٹرول یا انتخابی نشستیں خیرات میں دیتی ہیں۔

یہ سیاسی قوتیں بھی زمینوں اور بلند عمارتوں کے اجازت ناموں سے پیسے کماتی ہیں ۔ اندازاً 4 کروڑ کی اس آبادی میں بھتے اور بلیک اکانومی کی رقوم بھی کھربوں میں ہیں ۔ پانی کے قدرتی راستے روک دیئے گئے ہیں۔ اب نہ صرف اربن فلڈنگ کراچی کو تباہ کر دیتی ہے بلکہ صحت و صفائی کے عمومی معاملات بھی کنٹرول میں نہیں ہیں۔ نسلی اور لسانی تقسیم اور تضادات نے بھی ہر گروہ کو بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہر گروہ کراچی کی زمینوں پر قبضے اور ناجائز تعمیرات کو اپنا حق تصور کرتا ہے۔ بربادی کا یہ عمل جاری ہے۔ بارشوں کی تباہ کاریاں اپنی جگہ ۔ خدانخواستہ زلزلے کا ایک معمولی سا جھٹکا بھی آیا تو ہم تصور نہیں کر سکتے کہ کراچی کے ساتھ کیا ہو گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ کراچی میں بربادی کے اس عمل کو روکا جائے۔ کراچی پر قبضے کی جنگ تو فوری طور پر ختم نہیں کی جا سکتی لیکن جو لوگ بظاہر کراچی کے نمائندے ہیں، وہ فوری طور پر کراچی کا نیا ماسٹر پلان اتفاق رائے سے بنائیں۔ زمینوں پر قبضوں کو روکیں۔ آبی گزرگاہوں پر آبادیوں کی منتقلی کے خاتمے کی منصوبہ بندی کریں۔ شہر میں بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر فورا َروکیں۔ سیوریج اور نکاسی آب کے منصوبوں پر کام کریں ۔ اس کے لیے فنڈز کا انتظام کریں لیکن اس امر کو یقینی بنائیں کہ یہ منصوبے منتخب ادارے مکمل کریں۔

عباس مہکری

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments