چیف جسٹس آف پاکستان حکومت کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ کراچی کی صورت حال پر بھی عدلیہ کے ریمارکس کئی بار سامنے آ چکے ہیں‘ جبکہ اٹارنی جنرل خالد جاوید سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ وفاقی حکومت کراچی کے مسائل کے آئینی اور قانونی حل کے لیے مشاورت کر رہی ہے۔ اس دوران کراچی کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 149‘ 234 اور 235 پر ان کی روح کے مطابق پر عملدرآمد کروانے کے لیے حکومتی آئینی ماہرین اور وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کے روڈ میپ پر بھی سرگوشیاں شروع ہو گئیں۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ اٹارنی جنرل خالد جاوید کو پاکستان کی بااثر شخصیات کی حمایت حاصل ہے اور ڈاکٹر فروغ نسیم بھی اسی طرح کا پس منظر رکھتے ہیں؛ چنانچہ عبوری طور پر سندھ اور بالخصوص کراچی کے سنگین مسائل کو حل کرنے کے لیے وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے مابین معاہدہ طے پایا اور ایک دوسرے کی شدید مخالف جماعتیں کراچی کے مسائل کے حل کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ کی قیادت میں کراچی کی ترقی کے لیے متفق ہو گئیں اور اس مقصد سے نگران کمیٹی بھی قائم کر دی گئی۔
متحدہ قومی موومنٹ نے بھی کراچی کے مفادات کے تحت وفاقی حکومت کے اس مؤقف کی تائید کی ہے ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اس مشترکہ اتحادی کمیٹی کی پشت پر کراچی کے اہم سکیورٹی ادارے کھڑے ہیں اور حساس اداروں کی حمایت و تائید بھی اس میں شامل ہے۔ میئر کراچی وسیم اختر کی مدت قانونی طور پر 28 اگست کو پوری ہو جائے گی اور اس کے بعد متفقہ ایڈمنسٹریٹر لایا جائے گا‘ آئندہ بلدیاتی انتخابات سے قبل نئی حلقہ بندیاں بھی ہوں گی اور میئر کراچی کے اختیارات آئین کے آرٹیکل 140 اے کے مطابق بحال کرنے کے لیے سندھ اسمبلی میں قانون سازی بھی کی جائے گی۔ ان حالات میں بظاہر مشترکہ کمیٹی کا قیام خوش آئند ہے لیکن تحریکِ انصاف کے صوبائی اسمبلی کے ممبر خرم شیر زمان نے سندھ حکومت کو خبردار بھی کر دیا ہے کہ حکومت کے لیے یہ آخری آپشن ہے۔ موجودہ صورتحال میں یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔
وزیراعظم عمران خان کو ایسے ارکانِ اسمبلی اور وزر اپر گہری نظر رکھنی چاہیے جو ان کے ویژن کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ پیر صاحب پگاڑا نے بھی سندھ حکومت اورمیئر کراچی کے معاملے کو عوام کو بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش قرار دیتے ہوئے منہ چھپا کر کراچی کو وفاق کے حوالے کرنے کا الزام لگایا ہے؛ تاہم وفاقی حکومت نے اپنے اس اہم اتحادی یعنی پیرپگاڑا کو فی الحال نظر انداز کیا ہے‘ حالانکہ اس سے آگے چل کر وفاقی حکومت کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ سردار اختر مینگل کی علیحدگی اور چودھری برادران کی اپنی سیاسی چالوں کے بعد پیرپگاڑا سے فاصلے بڑھنے کا مطلب ہے کہ حکومت اپنے ایک اور اتحادی سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اندرونی طور پر اپوزیشن یہ کوشش بھی کر رہی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 193 کے تحت صدر مملکت سے گزارش کی جائے کہ وہ وزیراعظم پاکستان کو اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم جاری کریں۔
بہترین قومیں بہترین معاشروں سے بنتی ہیں اور بہترین معاشرے اپنی روایات اور اقدار سے جانے جاتے ہیں۔ کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے اس کے رہنما کا بہترین اور قابل ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ جب جاری حالات و واقعات پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ طاقتور حلقوں نے پنجاب حکومت کی خراب ہوتی ساکھ اور کرپشن کے الزامات کے پیشِ نظر تبدیلی کا ارادہ کر لیا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ عثمان بزدار پنجاب کے قابل وزیر اعلیٰ ثابت نہیں ہو پا رہے‘ ان کی غیر فعال حکومت سے پنجاب میں کرپشن کا بازار گرم ہوا ہے اور بیوروکریسی کا ڈھانچہ بھی تقریباً زمین بوس ہو چکا ہے‘ جبکہ صوبے میں ترقیاتی کام چیونٹی کی رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ علاوہ ازیں صوبے میں انفراسٹرکچر کا نظام شدید بد حالی کا شکار ہے۔ مخالفین کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پنجاب بھرمیں ضلعی اور اس سے نچلے درجے کی سڑکیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں‘ شہروں‘ قصبوں اور دیہاتوں میں گلیوں اور نالیوں کی حالت دگرگوں ہے‘ اور اس عرصے میں صوبے میں کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ بھی شروع نہیں کیا جا سکا ‘جبکہ پہلے سے جاری منصوبے بھی معطل ہو کر رہے گئے ہیں۔
یہ صورتحال پنجاب کو کارکردگی کے اعتبار سے سندھ ‘ بلوچستان یا خیبر پختونخوا کی حکومت سے ممتاز نہیں کرتی۔ الزام لگانے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ انتظامی امور کے لیے وزیر اعلیٰ صوبائی چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کے مرہون منت ہیں۔ لیڈر خواہ اپنے آپ میں بد عنوان نہ بھی ہو تواس کی کمزور قائدانہ صلاحیت ایسا خلا پیدا کر دیتی ہے جس سے نیچے کی سطح پر بد عنوانی اور بیورو کریسی کی من مانیاں راہ پیدا کر لیتی ہیں۔ پنجاب کو غالباً ایسے ہی بحران کا سامنا ہے۔ وفاقی حکومت کے پاس کچھ ایسے اختیارات ہیں جن کے ذریعے کسی صوبے میں مداخلت کے لیے گورنر راج اور ہنگامی صورتحال کا نفاذ کیا جا سکتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں ایک سے زائد صوبوں میں ان آئینی انسٹرومنٹس کو بروئے کار لانے کا وقت آن پہنچا ہے‘ اور اس کی تمام تر ذمہ داری ان صوبائی حکومتوں پہ عائد ہو گی کیونکہ صوبائی حکومتوں نے اختیارات اور فنڈز دستیاب ہونے کے باوجود اپنی متعدد ذمہ داریوں میں کوتاہی برتی ہے۔
اگر صوبائی حکومتوں نے اپنے فرائض مستعدی سے ادا کئے ہوتے تو کراچی کی سڑکوں‘ نالیوں ‘ گلیوں کی یہ حالت نہ ہوتی کہ برسات کے دنوں میں ہنگامی انتظامات کے لیے فوج کو طلب کرنا پڑا ہے۔ بہرکیف کراچی کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس شہر کے مفاد میں اتفاق و اتحاد خوش آئند ہے کہ یہ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں مل کر ہی اس شہر کے حق میں کوئی بہتر اقدامات یقینی بنا سکیں۔ اس معاملے میں بعض سیاسی یا غیر سیاسی جماعتوں کے تحفظات سمجھ سے بالاتر ہیں۔ حکومت کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ کراچی کی حالتِ زار میں بہتری کے لیے دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کر جو کچھ ممکن ہے کیا جائے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ وفاقی حکومت کراچی کی بہتری کے لیے مختلف آئینی آپشنز پر غور کر رہی ہے اور انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے تفصیلی گفتگو بھی کی ہے۔
اگرچہ وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 5‘ 145‘ 147‘ 149‘ 234 اور 235 کے ذریعے کراچی کا انتظام اپنی تحویل میں بھی لے سکتی ہے‘ مگر فی زمانہ وفاقی حکومت کے لیے یہ ایک مشکل آپشن ہو گا اور اس کے منفی اثرات بھی ہوں گے‘ جو شاید طویل مدت تک اپنا وجود برقرار رکھیں؛ چنانچہ حکومت کے لیے سب سے بہتر اور قابلِ عمل حل یہی ہے کہ سندھ کی صوبائی حکومت اور کراچی کی بڑی سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر اتفاقِ رائے اور ہم آہنگی کے ساتھ چلے تا کہ آئینی‘ سیاسی اور سماجی بحرانوں سے بچتے ہوئے کراچی کے حق میں کچھ بہتر کیا جا سکے۔ اُدھرخارجہ معاملات میں الگ طوفان برپا ہے ‘ کشمیر کے قومی بیانیہ پر پیدا ہونے والی نئی صورتحال کو اس پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ کشمیر جیسے متفقہ باور کیے جانے والے قومی معاملے میں خود حکومت کی صفوں کے اندر اختلافات اور تقسیم کے آثار انتہائی تشویش کا موجب اور چونکا دینے والے ہیں ۔
وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری کے بیانیہ سے حکومت کو بین الاقوامی سطح پر نقصان پہنچا ہے اور اس سے وزارتِ خارجہ پر کمزور گرفت کا تاثر بھی نمایاں ہوا ہے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے یہ کہہ کر وزارتِ خارجہ کا بھرم کھول کر رکھ دیا ہے کہ وزارت خارجہ کی بیوروکریسی نے وزیراعظم کی کوششوں اور کشمیر کی جدوجہد کو ناکام بنا دیا ہے۔ صدر ایوب خان کو اپنے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو سے بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا‘ اور جب روس کے وزیر اعظم نے ان کو مشورہ دیا کہ مسٹر بھٹو اب ان کے وفادار نہیں رہے ہیں تو انہوں نے چند ماہ کے بعد بھٹو کو برطرف کر دیا۔
0 Comments