Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی کے بچاؤ کا مشترکہ مینڈیٹ

کراچی کا کیس حقیقت میں سانپ کے میں منہ میں چھچھوندر کی دردانگیز داستان ہے، ایک ایسے میٹروپولیٹن کے عروج و زوال کا قصہ ہے جس کے مؤرخین بے شمار، مسیحا لاتعداد، ہمدرد ان گنت مگر عہد حاضر کے کسی حکیم لقمان کے پاس کراچی کے مسائل کا شاید کوئی حل نہیں۔ سندھ حکومت کو ایک اندیشہ یہ بھی لاحق ہے کہ وفاق آئینی آپشنز پر سنجیدگی سے غور تو کر رہا ہے مگر سندھ کو شک ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے ارادے نیک نہیں، اندر ہی اندر کچھ کھچڑی پک رہی ہے اور کچھ بھی ہو سکتا ہے، لیکن سیاسی سیاق و سباق میں ایسی جارحانہ مداخلت کا کوئی فوری امکان نظر نہیں آتا تاہم اندیشہ ہائے دور دراز بہت سے ہیں۔
سندھ حکومت کے قریبی ذرایع کا خیال ہے کہ معاملہ اٹارنی جنرل کے بیان کے مطابق کچھ آئینی آپشنز کا ہے جب کہ اس باب میں تجزیہ کار معاملہ کو نالوں کی صفائی سے بہت آگے دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی وقایع نگار کے مطابق مداخلت ہوئی تو مزاحمت شدید ہو گی۔

ہے داستان دراز بھی اور دلگداز بھی
لیکن کہاں وہ دل کہ دیا جائے اس کو طول

بہر کیف افواہوں، قیاس آرائیوں اور سیاسی جوڑ توڑ کے بیچ سنجیدہ اور فہمیدہ سیاسی اسٹیک ہولڈرز کا کہنا ہے کہ وفاق اور سندھ حکومت شہر قائد سمیت صوبائی مسائل کے حل کے لیے بظاہر یکجا ہو گئی ہیں۔ ترجمان صوبائی حکومت مرتضیٰ وہاب نے اپنے بیان میں تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ 3 وفاقی اور 2 صوبائی وزرا پر مشتمل مشاورتی کمیٹی بنائی گئی ہے، جس میں وفاق کی نمایندگی اسد عمر، علی زیدی، امین الحق اور سندھ کی ناصر شاہ، سعید غنی کریں گے جب کہ چیئرمین وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا تمام حکومتیں مل کر کام کریں گی تو مسائل حل ہوں گے، سندھ حکومت صوبے کی تعمیر و ترقی کے لیے مل کر کام کرنے کو ہمیشہ سے تیار ہے، مشاورتی کمیٹی وفاق کی طرف سے حائل رکاوٹوں کے حل میں کردار ادا کرے گی تاکہ دیہی سندھ اور کراچی میں ترقیاتی کام بروقت اور بہتر انداز میں مکمل کیے جا سکیں۔ خدا کرے کمیٹی کراچی کو بحران سے نکالے، شہر کی رونقیں پھر سے بحال ہوں، اس ملک کا معاشی انجن چلنے بلکہ دوڑنے کے قابل ہو، عروس البلاد کے سنہرے دن واپس لوٹ آئیں۔


سندھ حکومت اور وفاق کے مابین یکجہتی، سیاسی و جمہوری اسپورٹس مین شپ اور مثالی تعلقات کار استوار ہوں، چپقلش اور الزام تراشی و محاذ آرائی کے بجائے ملک میں سیاسی مفاہمت، یکجہتی اور انسانی ترقی و عوام کی خوشحالی پر صوبہ کے عوام متحد ہوں، یہ ناقابل یقین منظرنامہ نہیں ہے، سب ہو سکتا ہے، جمہوریت کا کمال اور اس میں مضمر خوبی بھی یہی ہے کہ انتظامی سطح پر صرف وہی فیصلے ہونے چاہئیں جن سے عوام الناس کی فلاح وبہبود، اداروں کی مضبوطی، ملکی تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں مربوط اقتصادی روڈ میپ کے تحت رواں دواں ہوں، ملک قرضوں کے بوجھ سے نجات پائے، صنعتی ترقی یقینی ہو اور برآمدات سمیت ملکی شعبے ایک گریٹر معاشی بریک تھرو کو یقینی بنائیں۔ کراچی میں اسٹیک ہولڈرز اگر مفاہمت اور تعاون واشتراک کے کسی ایسے جامع ماسٹر پلان پر متفق ہو رہے ہیں تو اس سے زیادہ بڑی خوشخبری قوم کے لیے اور کیا ہو سکتی ہے۔

میڈیا کے مطابق میئر کراچی وسیم اختر نے کراچی کے لیے ایڈوائزری کمیٹی کے قیام کی تصدیق کی ہے، انھوں نے کہا کہ نالوں کی صفائی کے بعد کمیٹی شہر کی بہتری کے لیے اقدامات بھی تجویز کریگی، واضح رہے سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں کراچی سے متعلق مقدمہ میں میئر پر تنقید ہوئی، اور جب انھوں نے عدالت عظمیٰ کے روبرو اپنے انتظامی اور مالی طور پر بے اختیار ہونے کا شکوہ کیا تو چیف جسٹس گلزار احمد نے انھیں صائب رائے دی کہ وہ عہدہ چھوڑ کیوں نہیں دیتے، جس پر میئر صاحب کے اس استدلال پر اربن ماہرین بھی سوچ میں پڑ گئے کہ ’’اگر میرے مستعفی ہونے سے کراچی کے مسائل حل ہو جائیں گے تو میں ابھی مستعفی ہونے کو تیار ہوں۔‘‘ لیکن چونکہ ملکی سیاست میں کسی انتظامی، سیاسی یا قومی ایشو پر وزرا یا ذمے دار عہدوں پر فائز کسی شخص کے استعفیٰ دینے کی کوئی مسلمہ روایت نہیں ہے اس لیے کوئی اخلاقی بنیاد پر مستعفی نہیں ہوتا چاہے ملک پر قیامت ہی کیوں نہ ٹوٹ پڑے، اس ملک میں ہزاروں لوگ حادثات کی نذر ہو جاتے ہیں، درد ناک اموات ہوئیں، شہری بہیمانہ جٖرائم کا نشانہ بنے، مافیاز نے حکومتوں کو یرغمال بنا لیا لیکن قانون کی حکمرانی قائم نہ ہو سکی۔ حکمراں صرف دعوے ہی کرتے رہے۔

سندھ حکومت کی طرف سے مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ آئینی اعتبار سے انتظامی امور سندھ حکومت ہی دیکھے گی، ایم کیو ایم (پاکستان) کے سربراہ خالد مقبول صدیقی اور مرکزی رہنما عامر خان نے کراچی کے مقامی لوگوں کے مینڈیٹ اور ان کے حقوق کی بات کی ہے، انتظامی ضرورتوں کے تحت مزید صوبوں کے بطور انتظامی یونٹ قیام کی تجویز بھی دی گئی، دریں اثنا صوبائی وزیر بلدیات و اطلاعات ناصر شاہ نے کہا ہے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر اسد عمر کے درمیان ملاقات میں ترقیاتی کاموں میں حائل رکاوٹیں دور کرنے پر تبادلہ خیال کیا گیا، کراچی میں، صوبائی و وفاقی ادارے کنٹونمنٹ، ڈی ایچ اے اور کے پی ٹی کام کر رہے ہیں۔ لہٰذا جب کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع ہوتا ہے تو رکاوٹیں سامنے آتی ہیں، اس لیے وزیر اعلیٰ نے اپنی کابینہ کے ہمراہ وفاقی وزیر اور ان کی ٹیم سے ملاقات کی تاکہ طریقہ کار وضع کر سکیں، اس ضمن میں ہونے والے اجلاس میں مجھ سمیت وزیر محنت سعید غنی، چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل افضل، میئر کراچی وسیم اختر و دیگر نے شرکت کی۔ 

شہر کی ترقی صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے، جس کے لیے پوری کوشش کر رہے ہیں۔ مزید براں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان مشاورت ہوئی جس میں وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے نمایندوں کے درمیان ملاقات کے مضمرات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دریں اثناء وزیراعلیٰ ہاؤس کے ذرایع کے مطابق ایپکس کمیٹی کا ہونے والا اجلاس بھی ملتوی ہو گیا۔ صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے کہا کہ جہاں تک ترقیاتی کاموں پر عملدرآمد کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کا تعلق ہے اجلاس میں ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ ناصر شاہ نے مزید کہا کہ سیلابی نالوں سے کیچڑ نکالنے، لینڈ فل سائٹس پر کیچڑ کو ڈمپ کرنا، نالوں سے تجاوزات کا خاتمہ، اسکیموں کی تکمیل جیسے دیگر امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ادھر وزیر اطلاعات و بلدیات نے شہر میں ترقیاتی کاموں کے لیے کسی بھی کمیٹی کی تشکیل کی واضح طور پر تردید کی انھوں نے کہا کہ شہر کی ترقی صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے جس کے لیے ہم پوری کوشش کر رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ وفاق اور سندھ حکومت میں کراچی کی نشاۃ ثانیہ Renaissance کے لیے جو بھی آئینی، قانونی اور سیاسی اقدامات کیے جائیں گے اس کا فائدہ صوبے کے عوام کو ہو گا۔ بس بد اعتمادی کی خلیج ختم ہونی چاہیے، مگر کراچی کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہے، اس شہر کی ایک خونریز تاریخ رہی ہے، سیاسی کشیدگی، محاذ آرائی، نسلی تشدد سمیت لاقونیت کے تلخ ایام عوام کے سروں سے گزرے ہیں، اس شہر کے تضادات، تجربات اور سیاسی رقابتوں کی درد ناک صورت رہی ہے، اب ضرورت ایک صاف ستھرے آغاز کی ہے، ساری سیاسی جماعتوں کو اپنے ماضی کے اختلافات، ناکامیوں، چپقلش اور بداعتمادی کے پہاڑ سرکانے چاہئیں، پیپلز پارٹی کو سوچنا چاہیے کہ اسے کراچی کے عوام کے دل و دماغ جیتنے میں کامیابی کیوں نہ مل سکی۔ 

ایم کیو ایم کو اپنی طویل سیاسی فعالیت، بالادستی اور بے تاج بادشاہی کے نتائج اور موجودہ صورتحال کا غیر جانبدارانہ جائزہ لینا چاہیے، پی پی اور ایم کیو ایم کو پارٹی کے تنظیمی معاملات پر توجہ دینی چاہیے، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم دونوں فطری سیاسی پارٹنر ہیں، پی ٹی آئی کو اپنے اقتدار کے پلس اور مائنس پوائنٹس پر نظر رکھنا لازم ہے، وزیر اعظم کو اپنی جماعت کے کنٹری بیوشن کا بیلاگ احتساب کرنا ہو گا، پی ٹی آئی ابھی تک کراچی میں کارکردگی کے تناسب سے اپنی کوئی شناخت نہیں بناسکی، وہ پارٹ آف دی سالیوشن بھی نہیں بن سکی ہے، الزام تراشیوں کی سیاست نے پی پی، ایم کیو ایم اور حکومتی جماعت پی ٹی آئی کو کراچی کی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے نہیں دیا، سب سیاسی الجھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ اب کراچی کو ڈوبنے سے بچانے کا موقع آیا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی کو ٹریک پر لانے کے لیے جتنے سیاسی سوالات اور چیلنجزکا اس سیاسی تثلیث کو سامنا ہے اب وقت آگیا ہے کہ وہ اس ذمے داری میں سرخرو ہو، ساری سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کا مینڈیٹ کھلے دل سے تسلیم کریں، اتفاق رائے سے کراچی کے اس چیلنج کو کشادہ دلی اور دور اندیشی سے قبول کریں۔ جمہوریت تو امکانات کا کھیل ہے۔ بسم اللہ کیجیے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز 

Post a Comment

0 Comments