دنیا کاایک بڑا شہر کراچی ، آج تباہ حال کیوں ہے؟ اس کی وجوہات بہت سی ہیں۔
۱۔ روزگار کے مواقعوں کے باعث یہاں پورے ملک سے لوگ آکر آباد ہونے لگے، اس تناظر میں کسی بھی حکومت، انتظامیہ یا سیاسی جماعت نے اس بڑھتی آبادی کو کسی نظم وضبط میں لانے کی کوشش نہیں کی، کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ، یوں کراچی میں کچی آبادیاں بغیر کیسی ماسٹر پلان کے بڑھتی گئیں حتی کہ اورنگی ٹائون کی پہاڑیوں پر بھی بستیاں قائم ہو گئیں۔ سہراب گوٹھ، گلزارہجری اسکیم 33 میں بجنور کو آپریٹو سوسائٹی سمیت بہت سے سوسائیٹیزکی زمینوں پر بعض گروپوں نے قبضہ کر کے اپنی آبادیاں قائم کر لیں جو اب بھی موجود ہیں حالانکہ عدالت ان کے خاتمے کا کئی مرتبہ حکم دے چکی ہے۔
۲۔ کچی آبادیوں کے بعد شہر میں آبادی کا دبائو مزید بڑھا تو پھر شہر کو وسیع کرنے کے بجائے اوپر تلے رہائش کا رحجان زور پکڑ گیا ، کیونکہ ایک جانب تو شہر کے بڑے بڑے ادارے صدر تا ٹاور کے علاقے ہی میں تھے جنھیں کسی اورعلاقے میں شفٹ کرنے کی صرف باتیں ہی ہوئی مگر عمل نہ ہوا ، دوسری جانب شہر کے بڑھتے ہوئے دیگر علاقوں میں سہولیات نہیں دی گئیں مثلاً بڑے اسپتال، کاروباری ادارے اور اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی قائم نہ کیے گئے ، جس کے باعث مرکز شہر میں آبادی کے ساتھ ٹریفک کا بھی دبائو بڑھتا گیا۔
۳۔ مذکورہ بالا صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومتوں اور ان کے سرکاری اداروں نے کچھ نہ کیا، یوں مرکز شہر میں زمین کی اہمیت بڑھتی گئی جس کے نتیجے میں آبادی کا دبائو مزید بڑھتا گیا، نتیجہ میں ساٹھ اور چالیس گز کے پلاٹوں پر لوگوں نے چار پانچ منزلیں تک بنا ڈالیں اورمختلف مافیائوں نے ندی نالوں پر بھی تعمیرات کر کے فروخت کر دیں، نیز سرمایہ داروں نے مرکز شہر میں پانچ سو گز جیسے چھوٹے پلاٹوں پر بھی دس سے پندرہ منزلہ فلیٹس بنا کر فروخت کر کے خوب پیسہ کمانے لگے اور تاحال اس سلسلے کو کوئی روکنے والا نہیں، کھلے عام قانون کی خلاف ورزیاں کر کے تعمیرات جاری ہیں، رشوت کا بازار گرم ہے۔
۴۔ چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ جس پلاٹ پر ایک سے دو گھرانے رہائش پذیر ہونا تھے، ان کی تعداد بڑھ کر سو ، پچاس تک جا پہنچی، یوں اب پانی و بجلی کی فراہمی ہو یا نکاسی آب اور پارکنگ وغیرہ سب کا بوجھ کئی گنا بڑھ گیا۔ ظاہر ہے کہ جس محلے کی گٹر لائن سے پچاس گھروں کا سیوریج کا پانی نکلنا تھا اور جہاں سے صرف پچاس گھروں کا کچرا اٹھانا تھا، وہاں اب کم از کم دو تین گنا اضافی بوجھ تھا۔
۵۔ شہر کی آبادی بڑھتی گئی مگر بڑھتی آبادی کے تناسب سے معقول رہائش، تعلیم، صحت ، پانی، بجلی، سیوریج اور کچرا اٹھانے کے انتظامات نہیں کیے گئے نہ ہی مستقبل کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی کی گئی۔
۶۔ ماحولیات کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ شاپرز کے استعمال کا تھا جس سے صرف ماحول کو نقصان نہیں پہنچ رہا تھا بلکہ شہر کے گٹر اور نالے بھی بند ہو رہے تھے۔ ان پلاسٹک شاپرز کی تیاری پر پابندی کے اعلانات تو بہت ہوئے مگر عمل درآمد صفر۔ حالیہ بارشوں میں پلاسٹک کے اس کچرے نے سیوریج اور نالوں کا نظام مفلوج کر دیا، جس سے مزید تباہی ہوئی۔
۷۔ ہمارے منتخب نمایندے ان مسائل کو حل تو کیا کرتے الٹا ’چائنا کٹنگ‘ جیسی اصطلاحات شہریوں کے حصے میں آئیں یعنی شہرکی خالی زمینوں کو فروخت کر کے پیسہ بنایا گیا اور عوام کو پلاٹس فروخت کر کے اور بھی بے ہنگم بنا دیا گیا ، گویا یہ پلاٹس بھی کچی آبادی کی طرح بغیر کسی منصوبہ بندی کے فروخت کر کے پیسے بنائے گئے اور شہر کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہ چھو ڑی گئی حتیٰ کہ ندی نالوں پر تعمیرات کر کے دولت اکٹھی کی گئی ۔ بعد میں خود ہی تجاوزات کے نام پر ان پلاٹس پر قائم مکانات کو توڑا گیا جسکا سراسر نقصان عام شہری کو ہوا۔ یوں جن منتخب نمایندوں کا کام اس شہرکی تعمیر و ترقی تھا وہ شہر کی اس بربادی میں خود ملوث تھے، یا خاموش تماشائی؟ یہ سوال بڑا اہم ہے۔
۸۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جن منتخب نمایندوں کو کراچی شہر میں ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈ ملتے ، اس کے درست استعمال میں نمایندے کس حد تک سنجیدہ ہوتے ہیں ؟ ایک حالیہ خبر کے مطابق پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کو گزشتہ برس کراچی شہر میں ترقیاتی فنڈ کی مد میں تین ارب روپے ملے تھے، جو استعمال نہ ہونے پر ضایع ہو گئے۔
۹۔ کراچی شہر کے مسائل پر سب ایک دوسرے کو الزام دیتے ہیں ، اختیارات نہ ہونے کا کہتے ہیں ، اس شہر کے تقریباً ستر فیصد علاقے کنٹونمٹس اور مختلف اداروں کے زیر اثر ہیں لیکن حالیہ بارشوں نے سب کی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں کے نمایندوں کے شکوے سننے کو ملتے ہیں کہ صوبائی حکومت ان کے ساتھ تعصب کر رہی ہے ۔ شہری علاقوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ، شہری علاقوں میں ترقیاتی کام نہیں ہو رہے ہیں وغیرہ وغیرہ، بات یہ کہ صوبائی حکومت باقی ماندہ سندھ میں کون سے کام کر رہی ہے؟ کراچی شہر کے علاقے لیاری سے ہمیشہ پیپلز پارٹی کو بھاری اکثریت سے ووٹ ملا لیکن وہ وہاں پینے کا پانی فراہم نہ کر سکی، تھرپارکر میں ہر سال بھوک سے درجنوں بچے ہلاک ہو جاتے ہیں، چھوٹے علاقے ہوں یا لاڑکانہ جیسے شہری علاقے ، آئے دن کتے بچوں کو کاٹ لیتے ہیں، مریضوں کو ایمبولینس تک دستیاب نہیں ہوتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خود شہری نمایندوں اور شہری اداروں میں کام کرنے والے افسران کی کرپشن کی کہانیوں سے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے۔
۱۰۔ اس مختصر سے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ کراچی شہر کے حوالے سے اختیارات کے مسئلے سے بھی بڑا مسئلہ منتخب نمایندوں اور بلدیاتی ادارو ں میں موجود افسران کی کام سے عدم دلچسپی ، نا اہلی اور ناجائز ذرایع آمدنی ہے۔ سوشل میڈیا ایسی خبروں سے بھرا پڑا ہے کہ جن میں منتخب نمایندوں اور افسران نے ایک دوسرے کے کرپشن کی بے نقاب کیا ہے۔
۱۱۔ لہذا سب سے پہلے اس شہر کو نقصان پہنچانے والوں کو بے نقاب کر کے سزا دینا ضروری ہے اور اس کا آسان راستہ یہ ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں جتنے بھی منتخب نمایندے ہیں ( قومی، صوبائی اور بلدیاتی) ان سب سمیت شہری اداروں کے افسران کے اثاثے چیک کیے جائیں۔ یہ دیکھا جائے کہ دس برس قبل ان کے اثاثے کیا تھے اور آج کیا ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ ہمارے پاس اختیارات نہیں، فنڈ نہیں ہیں کام کیسے کریں، دوسرا گروہ کہتا ہے کہ ہم تو فنڈ دے رہے ہیں، آخر کراچی پر خرچ کرنے کے لیے دیا جانے والا پیسہ کہا جا رہا ہے؟ یہ معلوم کرنا بے حد ضروری ہے، یہ مسئلہ حل نہ کیا گیا تو فنڈ آتے رہیں گے مگر کراچی کی حالت ایسی ہی رہے گی۔
جس طرح نیب نے نواز شریف خاندان کی کرپشن تلاش کرنے میں دلچسپی لی ہے اگر کراچی کے حوالے سے بھی لے تو آیندہ کے لیے کراچی کو لوٹنا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گا اور پھر کراچی کا پیسہ ، شہر پر ہی خرچ ہو گا ۔ درحقیقت اس وقت کراچی کو ایماندار اور مخلص رہنمائوں کی ضرورت ہے۔ شہری تباہ حال ہو گئے، دوسری طرف پھر شہری اور اندرون سندھ کے نمایندے لسانی سیاست کر رہے ہیں حالانکہ دونوں ہی تباہی کے ذمے دار ہیں، جب تک کرپٹ نمایندوں اور افسران کو نشان عبرت نہیں بنایا جائے گا، سندھ کے عوام کی حالت نہیں سدھرے گی۔
0 Comments