Ticker

6/recent/ticker-posts

ماحولیاتی تبدیلی کا شکار، کراچی

خبردار کرنے والے کب سے خبردار کر رہے ہیں، چلانے والوں کے چلا چلا کے گلے پڑ چکے ہیں اور چتاونی دینے والے، سنکھ پھونک پھونک کر ہانپ رہے ہیں دنیا ماحولیاتی تبدیلی کی زد پر ہے اور پاکستان اس تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ساتواں ملک ہو سکتا ہے۔ کرہ ارض پر انسانی معمولات سے خاص کر صنعتی ترقی کے بعد سے جو تبدیلیاں رونما ہوئیں وہ ہوتے ہوتے آج اس جگہ پہنچ چکی ہیں کہ دنیا کے کئی گنجان آباد علاقے فطرت اور عناصر کے قہر کی زد میں آنے والے ہیں۔ دنیا کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ سنہ 19-2018 کے اقتصادی سروے کے مطابق گذشتہ 100 سال کے دوران پاکستان کا اوسط درجہ حرارت بھی صفر اعشاریہ چھ ڈگری بڑھ چکا ہے۔ گلیشئیرز پگھل رہے ہیں، قطبین پر جمی برف پگھل رہی ہے، سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے۔

سمندر کی سطح بلند ہونے سے نہ صرف کچھ علاقے زیر آب آ سکتے ہیں بلکہ زیر زمین میٹھے پانی کے ذخائر میں کھارا پانی جانے سے یہ دائمی طور پر کھارے ہو سکتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کی کئی نشانیوں میں سے ایک شدید موسمی حالات ہیں۔ خشک سالی، درجہ حرارت میں اضافہ، شدید بارشیں، سموگ اور ہیٹ ویو، یہ سب شدید موسمی حالات ہیں اور ہم ان سے کسی حد تک متاثر ہو بھی چکے ہیں۔ کراچی کے ساحلی شہر ہونے کے باعث، اس کے موسمی تبدیلیوں سے متاثر ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ کراچی کی آبادی، پاکستان بننے کے بعد مہاجرین کی آمد سے تین گنا بڑھی اور پھر پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں حالات بگڑنے سے دوبار مزید اس شہر میں آبادی کا ریلا آیا۔ کراچی صنعتی، تجارتی اور ساحلی شہر ہونے کے باعث پورے ملک کے محنت کشوں کے لئے کشش رکھتا ہے۔ 

پچھلے 73 برسوں میں کسی نے بھی نہ سوچا کہ آبادی کے اس بے ہنگم طوفان کو کسی کنارے لگایا جائے۔ فالٹ لائنز پر بسا کراچی، زلزلے اور سائیکلون سے بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ کراچی کا جغرافیہ کچھ ایسا ہے کہ یہ ٹیلوں، پہاڑیوں اور ٹیکریوں پر بسا ہوا ہے۔ ایسی صورت میں یہاں پانی کے قدرتی بہاؤ کی کچھ گزرگاہیں تھیں۔ بارش کا پانی بلند شہری علاقوں سے نشیبی علاقوں میں جا کے ان گزرگاہوں یا نالوں سے ملیر، لیاری اور دوسری ندیوں میں اتر جاتا تھا۔ پانی کی گزرگاہ میں انسانی آبادی کون بناتا ہے؟ مگر بنانے والوں نے بنائیں۔ شہر کے بلند اور نشیبی علاقے، نالوں کی گزرگاہیں، کھاڑیاں، جوہڑ، سب طرف آبادیاں بنا دی گئیں۔ حالیہ بارشوں کی دستیاب فوٹیج میں صاف نظر آتا ہے کہ پانی کھڑا نہیں ہے، بلکہ بہہ رہا ہے، جیسے اپنے قدرتی راستے پر بہہ رہا ہو۔

دوسرا ظلم جو کراچی کے ساتھ ہے وہ کراچی کا کوڑا ہے۔ کراچی کا کوڑا اس لیے ٹھکانے نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ یہاں کوڑے کا کاروبار ہوتا ہے اور یہ اربوں کا کاروبار ہے۔ کوڑے میں موجود پلاسٹک اور شاپر، رہے سہے سیوریج سسٹم کو بھی بند کر دیتے ہیں۔ جن علاقوں میں پانی کھڑا ہے وہاں آپ کو کوڑا تیرتا ہوا نظر آیا ہو گا۔ ڈیفنس کے کچھ علاقے سمندر کو دھکیل کے بنائے گئے، مائی کولاچی بائی پاس کے قریب جہاں دو نالے سمندر میں گرتے ہیں وہاں آبادیاں بنانے سے ان نالوں کے دہانے سکڑ گئے۔ پچھلے ہفتے جو بارشیں کراچی پر برسیں یہ کئی برسوں کا ریکارڈ توڑ گئیں۔ سنہ 2015 میں آنے والی ہیٹ ویو کتنے انسانوں کو نگل گئی۔ آنے والے برسوں میں ماحولیاتی تبدیلیاں مزید تیزی سے رونما ہوں گی۔ کراچی آبادی کا بم بن چکا ہے۔

کسی بھی بڑے انسانی المیے سے بچنے کے لیے کراچی شہر کے نشیبی علاقوں اور پانی کی گزرگاہوں، نالوں وغیرہ سے آبادیاں ہٹا کر انھیں کہیں اور آباد کرانے کی ضرورت ہے۔ کراچی کی قدرتی کھاڑیاں، جوہڑ اور نالے بحال کرا لیے جائیں تو یہ شہر بچ سکتا ہے۔ بظاہر یہ دیوانے کی بڑ اور کالم نویس کا خواب نظر آتا ہے لیکن بڑے شہروں کو بے ہنگم طور پر بڑھنے سے روکنے کے لیے یہ اقدام ہر جگہ کرنے کی ضرورت ہے۔ شہروں کو عمودی آباد کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ زمین فطرت اور عناصر کے لیے چھوڑ دی جائے تو اب بھی بہت بہتری آ سکتی ہے۔ ہاؤسنگ کالونیوں پر مکمل پابندی لگا دی جائے اور پرانی کالونیوں کو بھی جو کسی نہ کسی طور علاقے کی جغرافیائی شکل تبدیل کر چکی ہیں ہٹا دیا جائے۔ ورنہ قدرت یہ کام خود کر لے گی اور اس کے لیے یہ چنداں مشکل نہیں۔

موسم جس طرح تبدیل ہو رہے ہیں اس سے زراعت بری طرح متاثر ہو گی۔ اگر بر وقت موثر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو دیہات سے آبادی کے مزید ریلے شہروں کی طرف آئیں گے۔ پاکستان جیسا ملک جہاں منصوبہ بندی کا فقدان ہے اور ہر طرف کوتاہ بین مفاد پرستوں کا راج ہے، وہاں یہ ماحولیاتی تبدیلیاں بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔ پچھلے 20 برسوں میں ڈیڑھ سو سے زائد شدید موسمی حالات گزر چکے ہیں اور ایسے میں ہماری وزیر ماحولیات محترمہ زرتاج گل ہیں۔ جن کی معلومات کے مطابق حکمران اچھا ہو تو زیادہ بارش برستی ہے۔ جانے ان کا وزیر ماحولیات ہونا زیادہ بڑا لطیفہ ہے یا ان کے آئے روز چھوڑے ہوئے اشقلے۔ جو بھی ہے اتنا معلوم ہے کہ اب مطالعہ پاکستان میں جغرافیہ اور شہریت کے باب بڑھانے اور تاریخ کے ابواب کم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

آمنہ مفتی

بشکریہ بی بی سی اردو
 

Post a Comment

0 Comments