نجانے وہ کون سا خوش نصیب دن ہو گا جب کراچی والوں کو بھی اپنے مسائل و مصائب سے چھٹکارا ملے گا۔ زمانہ ہو گیا کراچی والے آج تک ٹرانسپورٹ، پانی، بجلی اور سیوریج کے مسائل سے باہر نہیں نکل سکے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو دنیا کے کسی بھی بڑے شہر میں عموماً دکھائی نہیں دیا کرتے۔ ساری حکومتیں پہلے اپنے بڑے شہروں پر توجہ دیتی ہیں، اُس کے بعد چھوٹے شہروں اور قصبوں کے مسائل حل کرتی ہے۔ لیکن ہمارے یہاں کراچی شہر کے ساتھ معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ یہاں وفاق سمیت صوبائی اور شہری حکومتیں، کراچی کو جدید شہر بنانے میں قطعاً دلچسپی نہیں لیتیں۔ جنرل ایوب خان نے اسلام آباد شہر کو بسایا تو اُس پر توجہ بھی پوری دی اور اُسے تمام مسائل سے پاک دنیا کا ایک خوبصورت دارالحکومت بنا کر بھی دکھایا۔ یہ اور بعد ہے بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اُسے بھی پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح مسائلستان بنا دیا ہے۔ لیکن شریف برادران کی حکومت نے لاہور شہر کی شکل و صورت ہی بدل ڈالی۔ آج یہ شہر ملک کے اچھے شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ ووٹرز نے اگر میاں صاحبان کو سپورٹ کیا تو انھوں نے بھی کام کر کے دکھایا۔
لاہور میں میٹرو بس سروس کا بھی سب سے پہلے اجرا ہوا۔ میاں نواز شریف وزیراعظم بنے تو 1990 میں جدید موٹروے بنانے کے لیے انھوں نے لاہور سے اسلام آباد کی بنیاد رکھی۔ ابتدا میں محترمہ بے نظیر بھٹو سمیت ہمارے کئی سیاسی رہنماؤں نے اس پروجیکٹ کی شدید مخالفت کی اور اِسے فضول خرچی قرار دی۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ موٹروے سے شروع ہونے والا سفر سی پیک کی شکل میں آج ہمارے سارے سیاسی رہنماؤں کی ضرورت اور مشن بن چکا ہے۔ وہ عام حالات میں موٹر وے پر سفر کرنے کو جی ٹی روڈ سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ وہ تمام کے تمام آج اُس کی اہمیت و افادیت کے قائل ہو چکے ہیں۔ شہباز شریف نے بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب لاہور شہر میں اتنے ترقیاتی کام کیے کہ اُن سے پہلے کوئی اور وزیراعلیٰ نہیں کر سکا۔ لاہورمیں آج بھی جب میٹرو بس سروس کے ساتھ ساتھ اورنج لائن ٹرین بھی شہر کے بیچ سے گزرتی ہے تو دیکھنے والوں کو ایک فخر سا محسوس ہوتا ہے۔ انھیں احساس ہوتا ہے کہ نہیں ہمارے یہاں بھی جدید دنیا کی طرح اچھی ٹرانسپورٹ کی سہولت موجود ہے، مگر کراچی والے سب سے زیادہ ریونیو کمانے کے باوجود آج بھی تیس تیس سال پرانی ٹوٹی پھوٹی بسوں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
اِن بسوں میں نہ صفائی ہے اور نہ مناسب نشستیں۔ مسافروں کے ساتھ ڈرائیور اور کنڈکٹر کا رویہ انتہائی ذلت آمیز۔ یہ سب برداشت کرنے کے باوجود انھیں کرائے کی مد میں لاہور کی میٹرو ایئرکنڈیشن بسوں سے زیادہ ہی ادا کرنا پڑتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ یہاں نہ شہری حکومت نے کبھی توجہ دی اور نہ صوبائی حکومت نے۔ دس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے، پیپلز پارٹی کو یہاں حکومت کرتے ہوئے لیکن کیا مجال، اُس نے اِس شہر میں ایک بس کا بھی اضافہ کیا ہو۔ ہمیشہ وعدے اور دعوے کیے جاتے ہیں کہ اگلے چند مہینوں میں دس ہزار بسیں آرہی ہیں مگر نہ وہ بسیں کبھی آئیں اور نہ وزیروں کو ندامت محسوس ہوئی۔ موجودہ چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب گلزار احمد نے کراچی میں بالآخر سرکلر ریلوے کو بحال کرنے کا بیڑا اُٹھا لیا اور متعلقہ اداروں کو اُسے فوراً چلانے کا حکم جاری کیا ہے لیکن دیکھا یہ گیا کہ ٹال مٹول کا سلسلہ پھر بھی جاری رہا۔ ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے حکام اُسے بحال کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتے رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی بہت بڑی مافیا اِس شہر کے ٹرانسپورٹ مسائل حل کرنے ہی نہیں دیتی۔ ریلوے ٹریک کو ختم کر دیا گیا ، اُس پر عمارتیں بھی کھڑی کر دی گئیں تاکہ کوئی اُسے دوبارہ شروع کرنے کا سوچ بھی نہ سکے۔
اِس کے علاوہ یہاں تجاوزات قائم کر کے انسانی حقوق کا بہانہ بھی کھڑا کر دیا گیا۔ اب انھیں وہاں سے ہٹایا جائے تو حکومت میں ہی سے کچھ لوگ وہاں کے مکینوں کو احتجاج اور ہنگامہ آرائی پر اُکسا کر معاملہ کھٹائی میں ڈال دیتے ہیں۔ اب جب کہ جسٹس گلزار احمد کی وارننگ اور تنبیہ پر یہ اعلان تو کر دیا گیا ہے کہ 19 نومبر سے سرکلر ریلوے کے آدھے ٹریک پر ریل گاڑی چلنا شروع ہو جائے گی مگر جس ٹریک پر ٹرین کے چلنے کا اعلان کیا گیا ہے، اُس ٹریک پر کوئی اسٹیشن اِس حالت میں ہے ہی نہیں کہ وہاں سے لوگ ٹرین میں سفر شروع کر سکیں۔ وہاں پر قائم پرانے پلیٹ فارمز اور ٹکٹ گھر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ وہ یا تو کچرا کنڈی بن چکے ہیں یا پھر نشہ کرنے والوں کے اڈے۔ کوئی شریف آدمی وہاں سے گذر ہی نہیں سکتا۔ تمام ریلوے پھاٹک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں اور نئے پھاٹک ابھی تک بنائے بھی نہیں گئے۔ ایسے میں بھلا کون سی ٹرین وہاں سے گذر سکتی ہے۔
کراچی شہر کی بدقسمتی ہے کہ یہاں گزشتہ تیس برس سے کسی نے اِس پر توجہ نہیں دی۔ یہ خود رو جھاڑیوں کے طرح ہر سمت میں بے ہنگم بڑھتا ہی چلا گیا۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی والوں نے تو اِس شہر کا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ ستم بالائے ستم شہر کے ہمدردوں نے بھی شہریوں کو لوٹنے کے علاوہ چائنہ کٹنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور دیگر طریقوں سے شہر کو آسیب زدہ بنانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ مہاجروں کے نام پر ووٹ لینے والوں نے ہی اِس شہر سے وہ سلوک کیا جو شاید غیر بھی نہ کرتا۔ اِس شہر کے ساتھ وہ حشر کیا جس پر اگر غور کیا جائے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ﷲ ﷲ کر کے کراچی شہر میں کسی ایسی جماعت کو سب سے زیادہ ووٹ ملے جس کی مرکز میں بھی حکومت بن پائی۔ مگر اُس جماعت نے بھی ابھی تک اِس شہر کے باسیوں کو لارے لپے ہی دیے ہیں۔ کبھی 162 ارب روپے کی پیکیج کی شکل میں اورکبھی 1100 ارب روپے کے پیکیج کی صورت میں۔ مگر کیا مجال کہ ایک روپیہ بھی آج تک دیا ہو۔
اُن سے اچھا تو شاید بطور وزیراعظم میاں نواز شریف ہی تھے، حالانکہ ان کی پارٹی کو اِس شہر سے ایک نشست بھی نہیں ملی لیکن انھوں نے پھر بھی کراچی کے لیے کام کرنے کی پوری کوشش کی۔ شہر میں بدامنی ختم کرانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ گرین میٹرو بس کا تحفہ بھی اِس شہر کو ان کا ہی دیا ہوا ہے۔ کراچی اگر پہلے کی طرح ایک لسانی تنظیم کا شہر بنا ہوا ہوتا تو عمران خان صاحب کو شاید ایک سیٹ بھی اِس شہر سے نہیں مل پاتی۔ خان صاحب کو اِسی بات کو لے کر شکر گزار ہونا چاہیے اور یہاں کے لوگوں کے سکھ اور چین کے لیے کچھ کام کر کے دکھانا چاہیے۔ اب بھی وقت ہے وہ کراچی کے مسائل و مصائب دور کر کے شہریوں کے دل جیت لیں۔ یہ اٹھارہویں ترمیم کا بہانہ کر کے وہ اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برا نہیں ہو سکتے۔ کوئی صوبائی حکومت انھیں شہر کو بہتر بنانے سے روک نہیں سکتی۔ بس بات صرف نیتوں کی ہے۔ یاد رکھیں نیتیں درست ہوں تو ﷲ کی مدد بھی حاصل ہو جاتی ہے۔
0 Comments