Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی بورڈ کا تعلیمی بحران

کیا کراچی بورڈ سے انٹر سائنس اول کا امتحان دینے والے طلبہ کے لیے پیشہ وارانہ تعلیمی اداروں کے دروازے بند ہو جائیں گے؟ پہلے یہ سوال اخبارات کے صفحات پر نظر آیا اور پھر کراچی پریس کلب کے سامنے طلبہ اور ان کے والدین نے احتجاج کرتے ہوئے اٹھایا۔ اس سال بھی حسب روایت انٹرمیڈیٹ سال اول کے نتائج بہت دیر سے آئے۔ انٹر سائنس پری میڈیکل کا نتیجہ 36 فیصد رہا۔ انٹر سائنس پری انجنیئرنگ کا نتیجہ 34 فیصد کے قریب رہا۔ انجنیئرنگ اور میڈیکل کی تعلیم کے اداروں میں انٹرمیڈیٹ سال دوئم کے نتائج دیر سے آنے کی بناء پر وقت پر سیشن شروع کرنے کے لیے سال اول کے نتائج کی بنیاد پر مشروط داخلے دیے۔ پیشہ وارانہ اداروں میں داخلہ ٹیسٹ دینے کے لیے 60 فیصد سے زائد نمبر حاصل کرنا ضروری ہے، اگرچہ کراچی بورڈ کے نتائج کے مطابق دونوں فیکلٹیز کا نتیجہ 64 فیصد اور 60 فیصد رہا۔ اس بناء پر کراچی بورڈ سے پاس ہونے والی اکثریت میڈیکل اور انجنیئرنگ کے اداروں میں ناصرف داخلوں سے محروم ہو جائے گی بلکہ چین، روس، یورپی ممالک، امریکا اور کینیڈا کی یونیورسٹیوں میں کم اوسط نمبر ہونے کی وجہ سے داخلوں سے محروم بھی ہو جائے گی۔

کراچی پریس کلب پر ہونے والے مظاہروں میں طلبہ کے علاوہ طالبات کی بڑی تعداد بھی شریک ہو رہی ہے۔ ان احتجاجی طلبہ کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر طلبہ نے میٹرک کے امتحانات میں 80 سے 90 فیصد نمبر حاصل کیے مگر اب ان میں سے کئی طلبہ کو تین تین پرچوں میں فیل کر دیا گیا۔ اس مظاہرے میں شریک بعض طلبا و طالبات اتنے جذباتی تھے کہ وہ اس بات کا بلا روک ٹوک اظہارکر رہے تھے کہ ان کا مستقبل تباہ ہو گیا تو وہ اس بناء پر ان کے پاس خودکشی کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہو گا۔ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سراج میمن نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پری میڈیکل میں داخلے کے لیے کم از کم 60 فیصد نمبر لازمی ہوتے ہیں، اگر نتائج داخلہ کے کم از کم نمبروں سے کم ہیں تو اس کے اثرات میڈیکل کے تعلیمی اداروں کے داخلوں پر پڑیں گے۔ ایک سائنس کالج کے پرنسپل نے کہا کہ عام خیال یہ ہے کہ طالب علم سائنس کے بنیادی مضامین میں انتہائی کم نمبروں سے پاس ہوتے ہیں۔ وہ سال دوئم میں اتنے زیادہ نمبر حاصل نہیں کر پائے کہ 60 فیصد یا اس سے زیادہ کا ہدف حاصل کریں۔ 

اس صورت میں طلبہ سال اول کے مضامین کا دوبارہ امتحان دیتے ہیں، اگر پھر سال اول کا نتیجہ کم ہی رہا تو وہ اعلیٰ تعلیم سے یقینی طور پر محروم رہیں گے۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں سائنس کی تعلیم کے کچھ کالجوں کا معیار ہمیشہ بلند رہا ہے۔ ان کالجوں میں پی ای سی ایچ ایس کالج، سرسید کالج ، گورنمنٹ کالج ایس آر مجید، سینٹ لارنس کالج، آدم جی کالج، ڈی جے سائنس کالج، اسلامیہ سائنس کالج، گورنمنٹ سائنس کالج، کینٹ اور پی ای سی ایچ ایس فاؤنڈیشن شامل ہیں۔ بہت سے تعلیمی بورڈز میں برسوں سے ایڈہاک بنیادوں پر تقرریوں سے کام لیا جا رہا ہے جس سے تعلیمی بورڈز کی مجموعی کارکردگی متاثر ہو رہی تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنی آئینی مدت کے آخری دنوں میں کچھ بورڈز کے چیئرمین، سیکریٹریز اور ناظم امتحانات کے تقرر کیے تھے۔ ان تقرریوں کے بارے میں یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا تھا کہ یہ تقرریوں کا عمل شفاف طریقہ سے نہیں ہو رہا۔ 

سندھ ہائی کورٹ نے بورڈز کے بعض چیئرمین کے تقرر کو غیر قانونی قرار دیا مگر ان حکومتوں نے ان تقرریوں پر غور و خوص کیا اور کسی ذہین افسر نے یہ تجویز پیش کی کہ ڈویژنل کمشنروں کو تمام بورڈز کے چیئرمین کا چارج دیدیا جائے تو اب ڈویژنل کمشنر بورڈز کے نگراں بن گئے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا کہ جس کی صرف مذمت ہی ممکن ہے۔ پھر یہ رپورٹیں بھی شایع ہوئیں کہ کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ کے سیکریٹری اور ناظم امتحانات کے عہدے خالی پڑے ہیں۔ بعض رپورٹروں نے اپنی رپورٹس میں سارا معاملہ ڈویژنل کمشنر کا بورڈ کا چیئرمین بننے سے منسلک کر دیا، یہ بات حقیقت سے بالکل خلاف ہے۔ تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ امتحانات میں بورڈ کے چیئرمین کا امتحانات میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ اردو یونیورسٹی کے سینئر استاد پروفیسر اصغر علی کا کہنا ہے کہ امتحانات کے انعقاد اور اس کے نتائج کا سارا کام ناظم امتحانات کرتا ہے۔ کنٹرولر امتحانات اور ان کا ذیلی عملہ ہی ممتحن کا تقرر، امتحانی پرچہ کی تیاری اور امتحانی کاپیوں کی جانچ کی نگرانی اور امتحانی نتائج کے اجراء کا ذمے دار ہوتا ہے اس بناء پر کمشنر پر اس کی ذمے داری عائد نہیں ہوتی مگر ماہرین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ کمشنر کے پاس بے تحاشا ذمے داریاں ہیں۔

ان کے بجائے امتحانی کاموں کا برسوں تک فریضہ انجام دینے والے سینئر اساتذہ میں سے کسی استاد کو یہ ذمے داری سونپ دینی چاہیے۔ سینئر اساتذہ کا کہنا ہے کہ امتحانی کاپیوں کی جانچ کا کام کالجوں کے اساتذہ کرتے ہیں۔ اساتذہ کو امتحانی کاپیاں فراہم کرنے سے قبل کاپیوں پر خفیہ کوڈ تحریر کیا جاتا ہے۔ پہلے امتحانی کاپیوں کی جانچ پڑتال کے لیے سینٹر بنائے جاتے تھے مگر اساتذہ کو اب گھروں پر کاپیاں چیک کرنے کے لیے دی جاتی ہیں۔ ایک سینئر پرنسپل کا مشاہدہ ہے کہ نئے بھرتی ہونے والے اساتذہ کا معیار انتہائی پست ہے اور ان میں کاپیوں کی جانچ پڑتال کی اہلیت ہی نہیں ہے۔ اس معاملے کا گہرا تعلق کالجوں کی تعلیم سے مختلف ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ اساتذہ باقاعدہ کلاس لینے کلاس رومز میں نہیں آتے، وہ طلبہ کو کوچنگ سینٹروں میں بلاتے ہیں جہاں لاکھوں روپے فیس کے وصول کیے جاتے ہیں۔ کالجوں میں طلبہ کی سو فیصد حاضری پر سختی سے عملدرآمد ہو گا، تو امتحانات میں بہتر نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔

بعض عناصر اس مسئلے کو لسانی شکل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی کے طلبہ کے ساتھ طے شدہ منصوبے کے تحت زیادتی ہوئی ہے۔ دو سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس مسئلے کو انتخابی مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ کراچی بورڈ نے اس مسئلے پر تحقیقات کے لیے کور کمیٹی تشکیل دی ہے اس کی اہلیت پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس مسئلے کا حل ایک شفاف تحقیقات میں مضمر ہے۔ سندھ کے نگران وزیر اعلیٰ کو چاہیے کہ وہ سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج پر مشتمل ایک اعلیٰ تحقیقاتی کمیشن کے قیام کے لیے گورنر کو تجویز پیش کرے جس میں ریٹائرڈ پرنسپل اور سینئر اساتذہ کو شامل کیا جائے۔ یہ کمیشن اگر محسوس کرے تو دوسرے بورڈ کی کاپیوں کی جانچ پڑتال کے بارے میں بھی تحقیقات کرے۔ سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ اپنے انتخابی منشور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید آلات کے ذریعے امتحانات کے انعقاد کا وعدہ کریں۔ اس مسئلے کو تعلیمی مسئلہ ہی رہنا چاہیے۔

ڈاکٹر توصیف احمد خان  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Post a Comment

0 Comments