یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ سیاستدانوں نے ماضی کے تلخ تجربات سے کچھ نہیں سیکھا اورباہمی کشمکش سے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ جو غلطیاں ماضی میں کرتے رہے اور بار بار کرتے رہے وہی پھر سے دہرا رہے ہیں۔ اپنی اپنی سیاست کیلئے، اپنے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کیلئے ملک کو ڈیفالٹ کے خطرے تک لے آئے ہیں۔ سب کو نظر آ رہا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کی راہ پر گامزن ہے لیکن اب بھی جو کرنا چاہئے وہ نہیں کیا جا رہا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ ایک دو ماہ معاملات اسی طرح چلے تو پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا۔ حکومت کے اندر بھی اس حوالے سے بڑی پریشانی پائی جا رہی ہے، کچھ لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ سعودی عرب سے کوئی دو چار ارب ڈالر ملنے والے ہیں لیکن کیا اس سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ مانا کہ اس سے ڈیفالٹ کا خطرہ چند ایک ماہ کیلئے مزید ٹل جائے گا لیکن ہماری معاشی حالت مستحکم ہونے کے کوئی آثار نہیں۔ اسحاق ڈار کا تجربہ بھی ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
ان حالات میں کسی کو بھی لے آئیں ہمارے حالات بہتر نہیں ہو سکتے کیوں کہ حالات بدلنے کیلئے سیاستدانوں کو اپنا رویہ بدلنا پڑے گا۔ اپنے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنا ہو گا جس کیلئے بدقسمتی سے وہ بالکل تیار نہیں۔ شہباز شریف حکومت کسی کرشمے کے انتظار میں ہے جبکہ عمران خان کہتے ہیں کہ حالات کی بہتری کا صرف ایک ہی حل ہے کہ فوری الیکشن کرائے جائیں اور حکومت اُنہیں سونپ دی جائے تو پھر دیکھیں سب کچھ کیسے بدلے گا۔! میری بات نوٹ کر لیں کچھ نہیں بدلے گا۔ عمران خان دوتہائی اکثریت لے کرحکومت بنا لیں تو بھی کچھ نہیں بدلے گا کیوں کہ وہ خود کو بدلنے کیلئے تیار نہیں۔ وہی کچھ ہو گا جو ہم نے عمران خان کی ساڑھے تین سال کی حکومت کے دوران دیکھا۔ ’’چور چور، ڈاکو ڈاکو‘‘ کی گردانیں ہی سنائی دیتی رہیں گی، کوئی بزدار ہی پنجاب میں اور خیبر پختون خوا میں آئے گا۔ خان کی ساری توجہ اپوزیشن کو ختم کرنے پر مرکوز رہے گی اور معیشت کا حال بدتر ہی رہے گا۔ شہباز شریف جن کو بہترین ایڈمنسٹریٹر کے طور پر جانا جاتا تھا وہ بھی ابھی تک کچھ نہیں کر سکے۔
وزیر اعظم بننے کا اُن کا شوق تو پورا ہو گیا لیکن عمران خان کی حکومت کو ختم کر کے پی ڈی ایم کی حکومت کے قیام کا تجربہ بھی ناکام ہوا اور ہمارے سیاسی اور معاشی حالات بد سے بدتر ہو گئے۔ کسی سے بھی بات کر لیں، سب مانتے ہیں کہ ہمارے حالات کا واحد حل سیاست دانوں کا آپس میں مل بیٹھنا ہے۔ چند ایک لوگ کہتے ہیں کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ یعنی یہ سب مانتے ہیں کہ ہماری عافیت و بھلائی اسی میں ہے کہ سب مل بیٹھ کر پاکستان کو اس مشکل سے نکالیں۔ تاہم اس کا فیصلہ سیاستدانوں کو کرنا ہے اور اُنہی کو کرنا چاہئے لیکن صد حیف کہ سیاست دان آپس میں مل بیٹھنے کیلئے تیار نہیں اور ایسا اس لئے نہیں کہ وہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں بلکہ اس لئے کہ اگر وہ مل بیٹھے تو پاکستان اور عوام کے مفاد کا تحفظ تو ہو جائے گا لیکن اُن کے اپنے اپنے ذاتی و سیاسی مفادات شاید پورے نہ ہو پائیں گے ۔
ساری لڑائیاں، ساری جنگ اقتدار کے حصول یا اس کے بچاو کیلئے ہے، ساری سیاست عہدوں کی ہے الیکشن جیتنے کی ہے۔ اس کیلئے معیشت تباہ ہوتی ہے تو ہوتی رہے، پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔ المیہ یہ ہے کہ سیاستدان وقت کے تقاضوں کےبرعکس ایسا طرز عمل اختیارکئے ہوئے ہیں کہ جس سے سیاسی عدم استحکام بڑھے آپس کی نفرت میں اضافہ ہو، مزید دوریاں پیدا ہوں۔ یہ سب کچھ پاکستان اور عوام کی خدمت کے نام پر ہو رہا ہے تو جناب ایسی خدمت اور ایسی سیاست ہمیں نہیں چاہئے جس نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیا ہے، ہماری دنیا میں کہیں عزت نہیں رہنے دی اور ہمیں بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ یقیناً سیاستدان ایک بار پھر فیل ہو رہے ہیں۔
0 Comments