Ticker

6/recent/ticker-posts

لی مارکیٹ کی یادیں

اس وقت میرے سامنے لی مارکیٹ کی ایک قدیم تصویر ہے۔ گھڑیال ٹاور اور پس منظر میں مارکیٹ کی پرشکوہ عمارت اور عین سامنے سے گزرتی ٹرام اور ایک جانب عورت جس کے ہاتھ میں ایک کتاب ہے، صاف ستھری سڑک جس کے اطراف تجاوزات نہیں، ایک ایسا منظر ہے جو اپنی کہانی خود بیان کررہا ہو۔
’’یہ تقسیم ہند سے پہلے کی بات ہے، انگریزوں کی حکومت تھی، میری حدود میں دو بڑے حوض تھے جن کی مناسبت سے یہ علاقہ ’’میٹھا واڑہ‘‘ کے نام سے مشہور تھا یہاں کراچی کی پہلی سبزی منڈی واقع تھی، کراچی بھر میں سبزیاں اور فروٹ سپلائی ہوا کرتے تھے۔ چونکہ میرا وجود لیاری کے حدود میں تھا جس وجہ سے لیاری کے عوام بھی مجھ سے استفادہ حاصل کرتے تھے۔

  کراچی میونسپلٹی نے میرے وجود کو نئی شکل دی یعنی یہاں ایک عالی شان مارکیٹ تعمیر کروائی اور ایک انگریز میونسپل کمشنر مسٹر لی  کے نام پر میرا نام ’’لی مارکیٹ‘‘ رکھا میری اس تعمیر نے اس پورے علاقے کی کایا پلٹ دی اور یہ علاقہ تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ قیام پاکستان سے قبل کروڑ پتی لوگ بھی آباد تھے جنھوں نے یہاں کئی بلندو بالا عمارات تعمیر کروائی تھیں۔

یہاں کی زیادہ تر عمارات 1860 سے 1930 کے درمیانی عرصے میں تعمیر ہوئی تھیں، ان عمارات میں سر فہرست 1920 میں تعمیر ہونے والی کھتری الیاس قاسم برادرز کی وہ خوب صورت عمارت ہے جس کے سامنے 1943 میں کھتری جماعت کے خزانچی قاسم سیٹھ اور ہاشم ہارون نے قائد اعظم محمد علی جناح کے جلوس روک کر مسلم لیگ کے فنڈ میں ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی پیش کی تھی۔ تھیلی پر سونے چاندی کی گوٹے اور سلمہ ستاروں سے پاکستان کا نقشہ کاڑھا گیاتھا۔
میرا وجود (لی مارکیٹ) قیام پاکستان کے بعد خرید و فروخت کے ایک بڑے مرکز کی شکل اختیار گیا، اسی برطانوی دور میں گوہر دھن داس مارکیٹ، ہوتی مارکیٹ، جونا مارکیٹ اور بازاروں میں جوڑیا بازار، بمبئی بازار، صرافہ بازار، کھجور بازار وغیرہ تعمیر ہوئے اور پروان چڑھے۔ صدر بازار میں سیٹھ ناؤمل نے انگریزوں کی ہدایت پر دکانیں کھولی تھیں۔

تالپور دور میں بولٹن مارکیٹ کے قریب بھی ایک بازار کا پتا چلتا ہے، کراچی میں سب سے پہلے 1855 میں مچھلی میانی مارکیٹ تعمیر ہوئی جہاں اس علاقے کے مچھیرے سمندر سے پکڑی ہوئی مچھلیاں فروخت کرتے تھے۔ 1867 تک موجودہ بولٹن مارکیٹ کی جگہ ایک پرانا بازار واقع تھا۔ 1885 میں اس جگہ ایک عالی شان مارکیٹ تعمیر کی گئی جس کا نام اس وقت کے کلکٹر کراچی مسٹر سی ایف بولٹن  کے نام پر بولٹن مارکیٹ رکھا گیا۔ اس مارکیٹ کی لمبائی 100 فٹ اور چوڑائی80 فٹ تھی۔ 1889 سے قبل صدر کوارٹر کا علاقہ فوجی چھاؤنی میں شامل تھا۔

اس علاقے میں تالپوروں کے دور سے ہی تجارتی سرگرمیاں شروع ہوگئی تھی انگریز فوجیوں کے یہاں قیام کے بعد اس علاقے نے ایک بازار کی شکل اختیار کرلی اور اسے کیمپ بازار کہا جانے لگا۔ ابتدا میں یہ بازار صرف فوجیوں کے لیے مخصوص تھا مگر بعد میں عام شہریوں کو بھی یہاں خرید و فروخت کی اجازت دے دی گئی تھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ بازار کراچی کا سب سے بڑا بازار بن گیا تھا۔ حکومت نے اس بازار کی شہرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں ایک جدید عظیم الشان مارکیٹ تعمیرکرنے کا فیصلہ کیا۔

 نومبر 1884 کو اس مجوزہ مارکیٹ کا سنگ بنیاد گورنر بمبئی سر جیمزفرگوسن نے رکھی۔ 21 مارچ 1889 کو کمشنر سندھ مسٹر پری چرڈ  نے اس کا افتتاح کیا۔ اس کی تعمیر پر ایک لاکھ 20 ہزار روپے خرچ ہوئے تھے۔ اس سال چونکہ ملکہ وکٹوریہ کی سلور جوبلی تقریبات منائی جارہی تھیں، چنانچے موقعے کی مناسبت سے اس کا نام ’’ایمپریس مارکیٹ‘‘ رکھا گیا ابتدا میں یہاں صرف یورپین باشندے خریداری کرسکتے تھے اور مقامی لوگوں کا اس میں داخلہ ممنوع تھا۔
 ڈولی کھاتے کے علاقے میں بھی انگریزوں نے سولجر بازار کے نام سے ایک مارکیٹ تعمیر کرائی۔ جس کے ساتھ ہی یہ علاقہ سولجر بازار کے نام سے مشہور ہوگیا۔

ٹھہرو، ٹھہرو، بورمت نہ ہونا۔ میری (لی مارکیٹ کی) کہانی ختم نہیں ہوئی ہے آگے کی داستان یہ ہے کہ مجھ سے  پہلے اور بعد کی مارکیٹیں اور بازاریں ترقی یافتہ ہوگئے اور انھیں قومی ورثے میں شمارکیا جارہاہے جب کہ میری حالت یہ ہے کہ میں جن کے  کے تحویل میں تھی اب نہ جانے کس کے زیر انتظام ہوں مجھے کچھ معلوم نہیں۔ میری حالت سدھارنے کی بات، قومی ورثہ قرار دینے کی بات، یہ تو دور کی باتیں ہوگی میری طرف دیکھنا بھی کوئی گوارا نہیں کرتا کہ میں کس ناگفتہ بہ حالات میں ہوں۔ ماضی میں، میں بہت خوب صورت ہوا کرتی تھی۔

میرے ارد گرد ناجائز تجاوزات نہیں تھے۔ میرا گھڑیال ٹاور لوگوں کو دور سے نظر آتا تھا۔ گھر بیٹھے میری طرف دیکھ کر ٹائم معلوم کرتے تھے اب حالت یہ ہے کہ یہ گھڑیال ٹاور ٹوٹ پھوٹ کر صرف ایک ڈھانچہ ہے۔ گھڑیال صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے، مچھلی، گوشت اور سبزی بلاک اپنی خستہ حالی بیان کررہے ہیں، لیکن سننے والا کوئی نہیں میرے صحن میں ایک خوب صورت سبزہ زار پارک ہوا کرتا تھا جس کے بیچ میں ایک فوارہ ہوا کرتا تھا جو میری خوب صورتی کو جلا بخشتا تھا پھر نہ جانے کیا ہوا۔
  
اسے لاوارث چھوڑدیا، رفتہ رفتہ یہ پارک اجڑگیا صرف اس کے آثار رہ گئے تھے جہاں پہلے مارکیٹ میں آنے والے لوگ کچھ دیر آرام کیا کرتے تھے اب وہاں شام کے وقت بدن پر تیل کی مالش کرنیوالے اور دن کے وقت مداری  تماشا دکھانے لگے تھے پھر نہ جانے کہاں کہاں سے لوگ آنے لگے اور یہاں اپنی چادریں بچھاکر بھیکمانگنے لگے، ریڑھی والے بھی کھڑے ہونے لگے پارک کے جو آثار تھے وہ مٹادیے گئے اب اس پارک کی جگہ پر دکانیں تعمیر کردی گئی ہیں ایک طرح سے میری صورت بگاڑ دی گئی ہے۔

اب وہ کشادگی خوب صورتی نہ رہی، انگریز حکومت کے زمانے میں میرے ارد گرد  دکانیں نہ تھیں میں دور سے لوگوں کو نظر آتی تھی۔ اب عالم یہ ہے کہ سبزی، فروٹ، پرچون وغیرہ کی بے شمار دکانیں ہیں۔ چھوٹے بڑے خوانچہ فروش بھی فٹ پاتھ کی جگہ پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں، بے تحاشا ریڑھی والے بھی موجود ہیں، سننے میں آتا ہے کہ یہ لوگ بھتہ دیتے ہیں تاکہ انھیں تحفظ حاصل ہو یعنی انھیں کوئی یہاں سے ہٹا نہ سکے۔

گوشت اور مچھلی کی بڑی بلاک مارکیٹ ہے جو خستہ حالی کا شکار ہے دودھ مارکیٹ بھی ہے اور دیگر دکانیں بھی موجود ہیں، میرے (لی مارکیٹ) کے چاروں طرف جو دو منزلہ گول عمارت ہے اس کے اوپر نیچے اور درمیان میں مزید دکانیں، ہوٹل، خوانچہ فروش اور دفاتر موجود ہیں پہلے اس گول عمارت میں لیاری کا ڈاک خانہ اور ایک نجی اسکول ہوا کرتا تھا جو اب نہیں رہے۔

عمارت کے دونوں کونوں میں پھٹ پٹی (اسکوٹر رکشہ) اسٹینڈ ہوا کرتا تھا۔ اسکوٹر رکشہ موجودہ ’’چنگ چی‘‘ کا ایک نمونہ تھا جس کے آگے پیچھے نشست پر مسافر بیٹھا کرتے تھے۔ اس کے بعد یہاں (ٹیکسی رکشہ اسٹینڈ قائم ہوئے، کافی عرصہ تک یہ رہے پھر 2008 میں موجودہ ’’چنگ چی‘‘ نے سنبھالی اب یہاں ’’چنگ چی اسٹینڈ‘‘ قائم ہیں، جس کے دو روٹ پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں۔ ایک روٹ لی مارکیٹ سے بہار کالونی اور دوسرا روٹ لی مارکیٹ سے بکرا پیڑی تک ہے جس کا فی سواری کرایہ پہلے 5روپے تھا اب 10 روپے ہوگیا ہے۔ میرے (لی مارکیٹ) کے حدود میں گاڑیوں کی بے ہنگم پارکنگ بھی موجود ہے جہاں گاڑیوں کی دھلائی بھی کی جاتی ہے، الغرض یہ کہ میرا پورا علاقہ آمدنی کا زبردست زون ہے۔

جہاں روزانہ لاکھوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔ مجھے 2001 میں ناقابل بیان ذہنی صدمہ پہنچا جب مجھے میری ماں (لیاری) سے جدا کرکے نومولود ماں (صدر ٹاؤن) کی گود میں ڈالا گیا، یعنی نئے ضلع نظام کے تحت جو نئی حلقہ بندیاں کی گئیں اس میں لیاری کے قدیم علاقوں کو لیاری سے الگ کرکے صدر ٹاؤن میں شامل کیا گیا اس وقت سے آج تک میں اپنے ہوش و حواس کھوچکی ہوں۔ مجھے غیروں سے نہیں اپنے لیاری والوں سے گلے شکوے ہیں کہ انھوں نے میری جدائی پرکوئی افسوس نہیں کیا مجھے بھلا دیا ہے اب میں ہوں اور میری حسین یادیں ہیں یا پھر میرے ارد گرد بے ہنگم تجاوزات، چیختی چلاتی ٹریفک جام، ہنگامہ خیز زندگی جہاں نفسا نفسی کا عالم ہے ایسے میں کس کے پاس فالتو وقت ہے جو میری طرف دیکھے اور میری حالت پر رحم کرے۔

شبیر احمد ارمان


Post a Comment

0 Comments