کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آتشزدگی کے واقعے کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیکٹری میں آگ حادثاتی طور پر نہیں بلکہ منصوبہ بندی کے تحت شر انگیزی اور دہشت گرد کارروائی ہے۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن رحمان بھولا اور حماد صدیقی کی طرف سے فیکٹری مکان سے 20 کروڑ روپے بھتہ اور فیکٹری کی آمدن میں حصے دینے سے انکار پر آگ لگائی گئی۔
اس تحقیقاتی ٹیم میں ڈی آئی جی منیر شیخ، ڈی آئی جی سلطان خواجہ، ایس ایس پی ساجد سادھوزئی شامل تھے۔
اس رپورٹ میں آتشزدگی کے واقعے کے بعد مقدمے کا اندراج اور اس کے بعد تحقیقات نہ صرف بددیانتی پر مبنی تھیں بلکہ اس پر اندرونی اور غیر ضروری دباؤ تھا۔
دہشت گرد کارروائی کو ایف آئی اے میں سادگی سے قتل کا معاملہ دکھایا گیا اور بعد میں اسے حادثے میں تبدیل کر دیا گیا۔ اور یہ اس جرم کرنے والوں کے خلاف نہیں بلکہ فیکٹری مالکان اور اس کی انتظامیہ کے خلاف تھا۔
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جس انداز میں اس واقعے کی تحقیقات کی گئی ہیں اسے سے پولیس پر اثر و سوخ سے اس کی طرفداری اور جانبداری کے حد کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس تحقیقاتی رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کے ریاست اس واقعے کے بارے میں درج کی گئی ایف آئی آر واپس لے اور تعزیرات پاکستان کے دفعہ 1861 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دوبارہ مقدمہ درج کرائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیم نے محمد زبیر کے واقعے میں کردار کا معلوم کرنے کی کوشش کی کیونکہ تمام دستیاب شواہد اس جرم میں ملوث ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیم نے محمد زبیر کے سعودی عرب میں مقیم والد محمد نذیر کو تحقیقات میں شامل ہونے کے لیے واپس وطن آنے کے لیے ٹکٹ دینے کی متعدد بار پیشکش کی لیکن ہر بار اس کو مسترد کر دیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ مزید تحقیقات کا انحصار اس سے کی جانے والے تحقیقات پر ہو گا۔
بیرون ملک فرار ہونے والے ملزمان کو دوبارہ واپس لایا اور گرفتار کیا جائے۔
مفرور ملزمان کے پاسپورٹ منسوخ کیے جائیں اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالا جائے۔
تمام عینی شاہدین کو ’شاہدین تحفظ‘ کے ایکٹ کے تحت تحفظ فراہم کیا جائے۔
اس کے علاوہ فیکٹری کے واقعے کے بعد مالکان سے بھتے کی مد میں وصول کی جانے والے املاک کو قانونی طریقہ کار کے تحت واپس منتقل کیا جائے۔
اس کے علاوہ دیگر سفارشات میں آئندہ ایسے واقعے سے بچنے کے لیے نئے قانون بنانے اور نئی حفاظتی طریقہ کار کے مرتب دینے اور اس پر فیکٹری ملکان اور ملازمین کو تربیت دینے کا کہا گیا ہے تاکہ مستقل میں دہشت گردی کے اس نوعیت کے واقعات سے بچا جا سکے۔
اس کے علاوہ کراچی میں امدادی اداروں کی تعمیر نو اور پولیس کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
0 Comments