Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی چڑیا گھر، تاریخ کے آئینہ میں

شہرقائد کی مشہور تفریح گاہ چڑیا گھر کے اطراف شام کے وقت ٹریفک جام رہنا روز کا معمول بن گیا ہے، جس کی ایک بنیادی وجہ یہاں تفریح کی غرض سے آنے والوں کی واپسی پر ٹریفک قوانین پر عمل درآمد نہ کرنا بھی ہے۔ جس سے شام کو گھر واپس جانے والوں کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مغرب کی اذان کے ساتھ ہی چڑیا گھرکے مغربی گیٹ یعنی رنچھوڑ لائن کی سمت اور مغربی گارڈن پولیس ہیڈکواٹرز کی جانب گیٹ داخلے اور واپس جانے کے لیے حفاظتی نقطہ نظر سے بند کر دیے جاتے ہیں، جب کہ مشرقی جانب آغاخان جیم خانہ کی جانب اور فن سینٹر (جھولوں کی سائیڈ) جانے والے گیٹ واپسی کے لیے کھلے رہتے ہیں۔

گارڈن ایسٹ کی جانب سے ون وے روڈ پر شام کے وقت جانے والے گھرانے اوران کی گاڑیاں غلط اطراف سے مزار جمن شاہ بخاری کی طرف آتی ہیں جس کی وجہ سے خاص طور پر بدھ (خواتین کے لیے مخصوص دن) اور اتوارکو شدید ٹریفک جام رہتا ہے جب کہ بڑی گاڑیوں کی ممنوعہ اوقات میں خلاف ورزی سے مسئلہ مزید گھمبیر ہوجاتا ہے۔ کراچی چڑیا گھر ایک تاریخی ورثہ ہے، ایک صدی سے زائد عرصے سے یہ قائم ہے، جوکہ 33 ایکڑ رقبے پر محیط ہے، سالانہ 40 لاکھ شہری کراچی چڑیا گھر میں آتے ہیں جن کا تعلق غریب اور متوسط طبقے سے ہوتا ہے جب کہ اسکولوں کے طلبا و طالبات مطالعاتی دورے بھی کرتے ہیں جنھیں ماہرین چرند پرند جانوروں اور پرندوں سے متعلق معلومات فراہم کرتے ہیں بچوں کی جانوروں میں دلچپسی کے پیش نظروالدین کی ایک بڑی تعداد بھی کراچی چڑیا گھر کا رخ کرتی ہے، بدھ کا دن صرف خواتین کے لیے مخصوص ہے، و قتا فوقتا اس کی تزئین وآرائش کی جاتی رہی ہے لیکن ایک مدت سے یہ اپنی اصل حالت میں موجود نہیں ہے۔ تزین وآرائش کے نام پراس کا جوحلیہ بگاڑا گیا ہے وہ الگ بات ہے۔
گارڈن سے تاریخی دو کانسی کے مجسمے غائب ہیں، ان میں سے ایک ببرشیر اور دوسرا زیبرا کا مجسمہ تھا، جن پر بچے بیٹھا کرتے تھے اور شوق سے تصویریں بنوایا کرتے تھے ۔ چڑیا گھر کے بہت سے پنجرے خالی اور ویران ہیں جن میں کبھی ببر شیر، ریچھ ، بندر، چیتا، گینڈے، زرافہ ،پانی کی بلی سمیت دیگر جانور ہوا کرتے تھے۔ ہمارے بچپن میں لکڑیوں کے جھولے ہوا کرتے تھے جنھیں ہاتھوں سے حرکت دیا جاتا تھا۔ اب ترقی یافتہ دور ہے تمام جھولے الیکٹرونک ہیں۔
تالاب میں ایک کشتی ہوا کرتی تھی، جسے چپو سے چلایا جاتا تھا جس کی سواری کے لیے فی کس ایک روپیہ ٹکٹ تھا، اس تالاب میں بطخ بھی ہوا کرتے تھے ، پھر نہ جانے ایسا کیا ہوگیا کہ کشتی تالاب سے غائب ہو گئی ، تالاب کا پانی زہرآلود ہوگیا پھر تالاب خشک ہو گیا۔

طویل عرصے بعدگزشتہ سال اس تالاب کی تزئین وآرائش کی گئی، تالاب میں پانی بھر دیا گیا، تالاب کی کشتی بحال کر دی گئی جواب موٹر کشتی ہے، مدھوبالا اوراس کا ساتھی ( ہاتھیوں ) کی جوڑی چڑیا گھرکی رونق ہوا کرتے تھے اس کی سواری سے نہ صرف چھوٹے بچے لطف اندوز ہوا کرتے تھے بلکہ بڑے بوڑھے اور جوان بھی اس شاہی سواری کی مزے لوٹتے تھے، کافی عمر پانے کے بعد پہلے مدھو بالا کا ساتھی ہاتھی مر گیا تھا اس کے کچھ عرصے کے بعد تنہائی کی شکار مدھو بالا بھی ہم سے بچھڑ گئی تھیں۔ اس کے بعد چڑیا گھر سچ مچ ویران ہوگیا تھا، کافی عرصے بعد دو چھوٹے ننھے منے ہاتھیوں کی جوڑی کو سفاری پارک میں لایا گیا جہاں ان کی پرورش کی گئی جب یہ انسانوں کی بھیڑ سے آشنا ہوئے تو انھیں چڑیا گھر لایا گیا اور یہ آج تک اس قابل نہیں ہیں کہ وہ سواری اٹھا سکیں لیکن انھیں دیکھنے کے لیے شائقین کا مجمع لگا رہتا ہے۔

مفت میں نہیں ٹکٹ لے کر، اس طرح ان کی پرورش کا خرچہ نکل آتا ہے، مجھے یاد پڑتا ہے کہ بچپن میں ہم چڑیا گھر میں واقع مغل گارڈن میں بھی جایا کرتے تھے اور وہاں کی خوبصورت سبزہ زار اور بارہ دری کے ساتھ ون ٹین کیمرہ سے فوٹو لیتے تھے اس دور میں سیلفی کا تصور نہیں تھا اور اپنے آپ کی تصویر اتارنا معیوب تھا جب گروپ فوٹو بنوانا ہوتا تو وہاں موجود کسی اور شخص کی مدد لیتے تھے پھر وقت کی رفتا ر بڑی تو آٹو میٹک کیمرے ایجاد ہوئے جس نے یہ مشکل آسان کردی تھی، لیکن آٹومیٹک کیمرے صاحب استحقاق لوگوں کے پاس ہواکرتے تھے یا پھر ان کے پاس جن کا کوئی عزیز رشتے دار یا دوست بیرون ممالک سے انھیں بھیجتے تھے۔

بات ہورہی ہے چڑیا گھرکی ،تین نسلیں گزر چکی ہیں چڑیا گھر کی اس مغل گارڈن کو بند کرنے کی وجہ آج تک معلوم نہ چل سکا ہے۔ اسے آخر کیوں کر عوام الناس کے لیے اسے بند کر دیا گیا ہے، عام لوگ باہر کھڑے ہوکر اس کے گرل کے پاس سے ہی اپنی تصویر لیتے ہیں اور عوام کو احساس ہونے لگتا ہے کہ اس زمانے کے لوگ شاہی شہنشایت کے رعایا تھے اور آج وہ جمہوری شہنشاہیت کے عوام ہیں ، البتہ کبھی کبھی جمہوری وی آئی پیز کے لیے اس کا گیٹ کھول دیا جاتا ہے، کیا اچھا ہوتا کہ اگر کم از کم یوم آزادی والے دن اس کا دروازہ عوام الناس کے لیے کھول دیا جائے۔ تاکہ عام لوگ بھی اندر سے اس کا نظارہ کرسکیں۔ ممتاز بیگم آج بھی عوامی توجہ کا مرکز ہے اب اس کے ساتھ بھوت بنگلہ بھی ہے لیکن شہر کے خوفناک حالات سے گزرجانے کے بعد شہریوں کو اس سے کسی قسم کا خوف نہیں آتا ، واحد ریچھ ہے وہ بھی کبھی نظر آتا ہے اور کبھی نہیں ، پہلے چڑیا گھرکے بندر عاداتا ادھر سے ادھر چھلانگیں لگا دیا کرتے تھے اب کم خوراکی نے ان کی عادت بدل ڈالی ہے۔

بیچارے معصومیت سے عوام کو تکتے رہتے ہیں کہ کوئی ان پر رحم کھا کر چنا، مونگ پھلی یا پاپ کون کی بارش ان پر کر دے ، ہاں ایک مگرمچھ بھی مریل قسم کا نظر آتا ہے وہ بھی کم پانی میں ، سانپ گھر کی تزین و آرائش کی گئی ہے لیکن پھر بھی ویران سا لگتا ہے ، چیتا کہاں غائب ہے پتہ نہیں ، عجائب گھر اچھا لگا لیکن اب بھی اس میں کام کرنے کی ضرورت ہے ، بنگال ٹائیگر، بن مانس ، ببرشیر، سفید شیر ، پوما، مچھلی گھر، سفید مور، رنگین مور، کبوتر، رنگ برنگی چڑیا وجنگلی مر غیاں ، شتر مرغ ، ٹٹو، ہرن ، بارہ سنگا، چڑیا گھر کی علامات ہیں۔

چلتی پھرتی ریل گاڑی ایک اچھا اضافہ ہے، سرکاری طور پر پینے کا پانی کی سبیلیں تو ہیں لیکن پانی مفت میں نایاب ہے کیونکہ پیاس بجھانے کے لیے پانی خریدنا پڑتا ہے یا گھر سے ساتھ لانا ضروری ہے، قدیم مقامات میں سے فوارے بینچ ، چبوترہ ٹوٹ پھو ٹ اور خستہ حالی کا شکار ہیں البتہ پبلک فٹ پاتھ اچھے بنائے گئے ہیں، سبزہ زار بھی اچھا منظر پیش کرتے ہیں لیکن پنجروں میں اسپرے کی کمی محسوس کی جا سکتی ہے ۔ صفائی کا اچھا انتظام ہے لیکن لوگوں کو صفائی کا شعور نہیں ، راہ چلتے کچرا پھینک دیتے ہیں جب کہ جگہ جگہ کوڑا دان موجود ہیں۔

آج کل سننے میں آرہا ہے کہ چڑیا گھر کے ترقیاتی کاموں کے لیے پچاس کروڑ روپے کی سمری منظور ہو چکی ہے جس سے ترقیاتی کاموں کے ساتھ پانچ بڑے جانوردریائی گھوڑا اورگینڈے سمیت دیگر جانور چڑیا گھر لائے جائیں گے، تاریخی مغل گارڈن ( بارہ دری )، املی روڈ، ہاتھی گھر سمیت جانوروں کے پنجروں ،کشتی رانی کے تالاب کو بہتر کرنے کی گنجائش ہے ، نئے مچھلی گھر میں نایاب نسل کی مچھلیاں لائی جائیں گی۔ اس وقت چڑیا گھر میں عملے کی شدید کمی ہے،جانوروں کی خوراک کے انتظامات بہترکرنے کی ضرورت ہے ، جانوروں کی میڈیکل ٹیسٹ بروقت کرنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ بعض جانوروں کی بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے جانور ہلاک ہوچکے ہیں۔

نئی نسل کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ آج کا کراچی چڑیا گھر کی جگہ پر 1799 میں ایسٹ کمپنی کی فیکٹری قائم تھی، 1840ء میں اسی مقام پر سب سے پہلا وسیع وعریض باغ بنایا گیا تھا ۔ 1886ء تک یہ خوبصورت باغ بن چکا تھا، اس وقت یہ باغ شہر سے باہر تھا، پہلے یہ باغ انگریزحکام کی تفریح کے لیے مختص تھا۔ 1890ء تک اس باغ میں 293 مختلف جنگلی جانوراور 465 پرندے لائے جاچکے تھے، بعد میں ان کو دیکھنے کے لیے عوام کو اجازت دی گئی ، 1934ء سے قبل اس باغ کا نام وکٹوریہ گارڈن تھا ، جولائی 1934ء میں اسے مہاتما گاندھی گارڈن کا نام دیا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس کا نام زولوجیکل گارڈن کراچی رکھا گیا جسے اب کراچی چڑیا گھرکہتے ہیں اسے دنیا کے بڑے چڑیا گھروں میں شمارکیا جاتا ہے۔

شبیر احمد ارمان

Post a Comment

0 Comments