Ticker

6/recent/ticker-posts

پاکستان سٹیل مل کی نجکاری : ’دو ہی راستے ہیں، احتجاج یا پھر خودکشی‘

پاکستان سٹیل ملز کے ملازمین نے ادارے کا انتظام 30 سال کے لیے کسی نجی کمپنی کے حوالے کرنے اور سات ہزار سے زیادہ ملازمین کو پیکیج دے کر فارغ کرنے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان سٹیل ملز کو بند ہوئے 20 ماہ گزر چکے ہیں۔ حکومت نے 19000 ایکڑ رقبے پر محیط اِس ادارے کی نجکاری فیصلہ کیا تھا لیکن اب اِس کا انتظام 30 سال کے لیے ایک نجی ادارے کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ سٹیل ملز کا انتظام نجی کمپنی کو سونپنے کے منصوبے کی منظوری نجکاری کی کابینہ کمیٹی دے چکی ہے لیکن اب حکومت کی باضابطہ منظوری اور مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کا انتظار ہے۔

حکومت کا موقف ہے کہ سٹیل ملز کا خسارہ 415 ارب روپے ہو چکا ہے لہٰذا وہ اِسے خود نہیں چلا سکتی تاہم حکومتِ پاکستان کے فیصلے کے مطابق پاکستان سٹیل کے اثاثے فروخت نہیں کیے جائیں گے۔ حکومت نے پاکستان سٹیل کو نئی زندگی دینے کے لیے منصوبہ تو بنا لیا ہے لیکن اب تک وہ اس معاملے پر ملازمین کو اعتماد میں نہیں لے سکی ہے۔ سٹیل مل کے ملازمین حکومت کے اِس فیصلے پر ناراض ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے فیصلے کے خلاف سٹرک پر، عدالت میں غرض ہر جگہ احتجاج کریں گے۔ ایک ملازم نے کراچی میں بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا 'ہم کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے، ہم سب ایک ساتھ ہیں، انشاءاللہ تنگ آمد تو جنگ آمد۔‘
ایک اور ملازم کا کہنا تھا 'ہم خود سوزی کر لیں گے، ہمارے پاس کچھ نہیں۔ ہم غریب لوگ کیا کر سکتے ہیں، ہمارے پاس دو راستے ہیں، سڑکوں پر احتجاج یا پھر خودکشی۔‘ اس صورتحال میں حکومت کے لیے اِس منصوبے پر عمل درآمد آسان نہیں نظر آتا۔ نجکاری کے سابق وزیر اور موجودہ گورنر سندھ محمد زبیر کا موقف اِس کے برعکس ہے۔ اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت نے ملازمین کے ساتھ مذاکرات کر کے ایک 'پرکشش پیکیج' بنایا ہے جو کسی بھی ایسے ملازم کو زبردستی نہیں دیا جائے گا جو اُسے نہیں لینا چاہتا ہو۔

پاکستان سٹیل ملز
25 ارب
کی لاگت سے 1973 میں بنائی گئی
3500 ٹن فعال حالت میں اس کارخانے کی روزانہ ہیداوار تھی
14000 افراد اس مل میں کل وقتی یا جز وقتی ملازم ہیں
19000 ایکڑ سٹیل ملز کا ملکیتی رقبہ ہے جبکہ کارخانہ 4500 ایکٹر پر قائم ہے
110 میگا واٹ کا تھرمل بجلی گھر بھی مل میں واقع ہے جو نیشنل گرڈ کو بھی بجلی فراہم کرتا تھا

اُنھوں نے کہا 'بہت سے ملازم ایسے ہوتے ہیں جن کی عمر 58 برس کے آس پاس ہوتی ہے اگر اُنہیں یکمشت بڑی رقم مل جائے تو اُسے زیادہ فائدہ ہو گا بجائے کہ وہ اُسے مسترد کرے۔‘ پاکستان سٹیل اور اس کے ملازمین کے مستقبل کا فیصلہ کچھ بھی ہو، ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی معیشت کے اس اہم ترین ادارے کو اس حال تک پہنچانے میں بدانتظامی، سرکاری نا اہلی اور بدعنوانی کے ساتھ ساتھ ادارے کے ملازمین کی کام میں عدم دلچسپی کا بھی اہم کردار ہے۔ اسی لیے حکومت ملازمین کی چھانٹی کو سخت مگر ناگزیر فیصلہ سمجھتی ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان سٹیل مل کا بہترین پیداواری برس سنہ 1993 تھا اور ملک میں خام مال کی مدد سے سٹیل بنانے والا یہ واحد ادارہ ہے جو ٹیکس کی مد میں حکومت کو اب تک 105 ارب روپے سے زیادہ ادا کر چکا ہے۔

عبداللہ فاروقی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

Post a Comment

0 Comments