Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی ایک تعفن زدہ شہر ؟

کراچی بدترین نظام حکومت کا شکار ہے۔ وفاقی حکومت کی عدم دلچسپی، سندھ حکومت کی غیر شفاف پالیسی، بلدیاتی اداروں کی اختیارات میں کمی اور مالیاتی وسائل کی عدم دستیابی کی سزا اس شہر کے باسیوں کو مل رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہونے والی بارش اور پھر عیدالاضحی کے تین دنوں میں قربانی کے جانوروں کی آلائشوں کے ڈھیر سے گندگی کا ایسا ماحول پیدا ہو گیا کہ انسانوں کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ محکمہ موسمیات کی کارکردگی اب خاصی بہتر ہو گئی ہے جس نے ایک ہفتے قبل بارشوں کے ایک سسٹم کے کراچی میں داخل ہونے کی پیشگوئی کر دی تھی۔ پھر موسم پر تحقیق کرنے والے بین الاقوامی ادارے بھی بارش کے خطرے کی نشاندہی کر رہے تھے۔ سندھ سے متصل بھارت کی ریاست گجرات میں شدید بارشیں ہو رہی تھیں۔ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شہر ممبئی خوفناک بارشوں کی زد میں آیا تھا۔ 

یوں کراچی اور اندرونِ سند ھ بارشوں کے امکانات بہت زیادہ تھے۔ سندھ کی حکومت اور منتخب میئر نے بارش سے پیدا ہونے والی متوقع صورتحال سے نمٹنے کے لیے مختلف نوعیت کے دعوے کیے تھے مگر 10 گھنٹے کی شدید بارش نے سب کچھ الٹ کر رکھ دیا۔ لیاری اور ملیر ندی میں طغیانی آگئی، نالوں کا پانی مختلف بستیوں میں داخل ہو گیا تھا۔ کیتھر پہاڑی سلسلہ کے اطراف میں ہونے والی بارشوں کا پانی سپر ہائی وے کو عبور کرتا ہوا سعدی ٹاؤن اور اطراف کی بستیوں میں داخل ہو گیا جس کے بعد لوگوں کے گھروں میں پانی داخل ہو گیا۔ ایسی ہی صورتحال نیشنل ہائی وے کے اطراف کی بستیوں اور ملیر ندی سے متصل علاقوں میں بھی ہوئی۔
 پھر یہ تباہی صرف کراچی کے مضافاتی علاقوں میں نہیں ہوئی بلکہ کراچی سینٹرل، ویسٹ اور ایسٹ کے علاقوں میں بھی یہ صورتحال پیدا ہوئی۔ نارتھ کراچی اور ناگن چورنگی کے علاقے پانی میں ڈوب گئے۔ کراچی سینٹرل میں قدیم بستی گولی مار اور کشمیری محلہ میں پانی کی تباہی کا ایسا منظر سامنے آیا کہ لوگوں کو 60ء اور 70ء کا کراچی یاد آگیا۔ حال ہی میں تعمیر کردہ یونیورسٹی روڈ پر اتنا پانی جمع ہوا کہ کشتیاں چلانے کے امکانات پیدا ہو گئے۔ آئی آئی چندریگر روڈ بھی پانی میں اس طرح ڈوبا جیسے 60ء، 70ء ، 80ء اور 90ء کی دھائیوں میں ڈوبتا تھا۔ ایسی ہی صورتحال سول اسپتال اور سوبھراج اسپتال کے اطراف میں ہوئی۔ یہ علاقے پاکستان بننے کے بعد سے بارشوں کے پانی میں اسی طرح ڈوبتے تھے جیسے اب ڈوب گئے۔

ماہر تعمیرات ڈاکٹر نعمان احمد نے اس صورتحال کو ناقص منصوبہ بندی اور ناقص تعمیراتی منصوبوں کا نتیجہ قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اربوں روپے کی رقم سے تعمیر ہونے والی یو نیورسٹی روڈ کی ڈیزائننگ میں بنیادی غلطیاں ہیں۔ یونیورسٹی روڈ کی تعمیرکے منصوبے میں پانی کی نکاسی کے لیے تعمیر ہونے والا ڈرینج ناقص ڈیزائننگ کا شکار ہے اور اس میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ پانی کی وافر مقدار کا اخراج کر سکے۔ یوں جب بھی بارش ہو گی یہی صورتحال پیدا ہو گی۔ بارش نے مصطفی کمال کے دور کی ترقی کے دعووں کی دھجیاں اڑا دیں۔ بارش کا پانی جمع ہونے سے لیاقت آباد، ناظم آباد اور سھراب گوٹھ کے انڈر پاس بند ہو گئے۔ تعمیرات کے شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈرپاس سے پانی نکالنے کا خود کار نظام ضروری ہوتا ہے مگر ان انڈر پاسوں کی تعمیرکرتے وقت اس جدید نظام کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا گیا۔

پانی کی نکاسی کے لیے جو موٹریں لگائی گئیں وہ عمومی طور پر خراب رہتی ہیں۔ بارش کی پیشگی اطلاع کے باوجود ان مشینوں کی خرابی کو دور نہیں کیا گیا تھا۔ یہ مشینیں اتنی چھوٹی ہیں کہ پانی کی ریلے کو برداشت نہ کر سکیں، یوں یہ انڈر پاس سوئمنگ پول میں تبدیل ہونے سے نہ صرف ڈسٹرکٹ سینٹرل کو جانے والے راستے بند ہو گئے بلکہ بہت سی گاڑیاں اس پانی میں ڈوب گئیں۔ معاملہ صرف پانی جمع ہونے کا نہیں رہا بلکہ بارش کے آغاز کے ساتھ بجلی بند ہونے اور بجلی کے تار گرنے سے ہلاکتوں میں اضافہ بھی ہوا۔

کراچی کو بجلی سپلائی کرنے والے ادارے نے شہر کو طبقاتی طور پر تقسیم کر دیا۔ امراء اور متوسط طبقے کی بستیوں میں اس دفعہ بجلی کی فراہمی کی صورتحال بہتر رہی۔ کچھ علاقوں میں تو یہ خوشگوار تجربہ بھی ہوا کہ وہاں بجلی کی سپلائی میں خلل نہیں پڑا۔ کچھ علاقوں میں کم وقفے کے لیے بجلی کی سپلائی معطل ہوئی اور جلد ہی بحال ہو گئی مگر غریبوں کی بستیوں میں بارش شروع ہوتے ہی بجلی غائب ہو گئی۔ بجلی کے تار گرنے سے اموات اورنگی، کورنگی، ملیر، لانڈھی، قائد آباد، بلدیہ ٹاؤن اور لیاری وغیرہ کے علاقوں میں ہوئیں۔ ان علاقوں میں بجلی کی کمپنی کے اہلکاروں نے فالٹ دور کرنے پر توجہ نہیں دی۔ بجلی بند ہونے سے ان علاقوں میں پانی کی سپلائی بھی متاثر ہوئی۔

ابھی بارش کی تباہ کاریاں جاری تھیں کہ عید الاضحی کا تہوار آگیا۔ لوگوں نے سڑکوں اور گلیوں کے درمیان جانور ذبح کیے۔ ہر طرف جانوروں کا خون جم گیا۔ جانوروں کی آلائشوں نے فضا کو مزید خراب کر دیا۔ پورا شہر تعفن زدہ ہو گیا اور تعفن کی بناء پر متعدد بیماریاں پھیلنے کے امکانات بڑھ گئے۔ شہر میں کہیں کہیں بلدیاتی اداروں کی گاڑیاں متحرک نظر آئیں مگر صفائی کے ناقص انتظامات نے تمام دعوؤں کا پول کھول دیا۔ کراچی میں گندے پانی کی نکاسی کا نظام کئی سال پہلے معطل ہو گیا تھا، یہی وجہ ہے کہ شہرکی بڑی شاہراہیں ہوں یا چھوٹی سڑکیں یا گلیاں ان میں گٹر کا پانی جمع رہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گٹر کی لائنوں کی صفائی کے لیے مختص بجٹ کہیں اور خرچ ہو جاتا تھا، یوں آہستہ آہستہ یہ لائنیں چوک ہو گئیں۔

موجودہ حکومت نے جو سڑکیں دوبارہ تعمیر کیں ان میں بھی گندے پانی کی نکاسی کے بین الاقوامی معیار کے نظام کی تنصیب کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ صوبائی حکومت نے یہ شعبہ بلدیہ کراچی سے چھین کر واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے حوالے کر دیا اور ایک ویسٹ مینجمنٹ بورڈ قائم کر دیا گیا۔ اب صفائی کا ٹھیکہ چین کی ایک کمپنی کے سپرد ہو گیا۔ کراچی کے میئر وسیم اختر نے صفائی کا ٹھیکہ بحریہ ٹاؤن کے حوالے کر دیا مگر حالات میں کہیں بہتری نہیں آئی۔ اب جب دوبارہ بارش ہو گی تو شہر پھر پانی میں ڈوب جائے گا۔ بارش ملیر کے کاشت کاروں کے لیے نعمت ثابت ہو سکتی تھی مگر حکومت سندھ کے تعمیر کردہ بند کے ٹوٹنے سے نہ صرف اطراف کے گوٹھ متاثر ہوئے بلکہ یہ قیمتی پانی جو اگلے دو برسوں تک استعمال ہو سکتا تھا سمندر میں مل گیا۔

کراچی کو بچانے کے لیے وفاقی حکومت، حکومت سندھ اور بلدیہ کراچی کو ایک پیج پر ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کو نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام کی اہمیت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ سندھ حکومت کو تمام بلدیاتی اختیارات بلدیہ کراچی کو منتقل کردینے چاہیئیں۔ منتخب میئر کو کراچی کے لیے بین الاقوامی معیار کے ڈرینج سسٹم کے لیے منصوبہ تیار کرنا چاہیے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں اس منصبوبہ کی نگرانی اور فنڈنگ کے لیے طریقہ کار طے کریں۔ یہ منصوبہ اس طرح تیار کرنا چاہیے کہ وہ اگلے 75 سال کی ضرورت پوری کر سکے۔ صوبائی حکومت شہر میں صفائی کا معیار قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہ اس کی ذمے داری ہی نہیں ہے۔

یہ ذمے داری بلدیہ کراچی کے سپرد ہونی چاہیے۔ منتخب قیادت کو بلدیہ کراچی کی جدید خطوط پر تنظیم نو کا چیلنج قبول کرنا چاہیے اور یہ تنظیم نو اسی طرح مؤثر ہو گی کہ کوئی غیر حاضرملازم کی ملازمت برقرار نہ رہے ۔ اگر وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی قیادت کراچی کو تباہی سے بچانے کے لیے لائحہ عمل پر متفق نہ ہوئے تو پھر بارش سے اتنا ہی نقصان ہو گا جتنا نقصان 31 اگست کی بارش میں ہوا۔

ڈاکٹر توصیف احمد خان
 

Post a Comment

0 Comments