Ticker

6/recent/ticker-posts

دہشت گردی کی آڑ میں جامعہ کراچی کے خلاف سازش

جامعہ کراچی میری مادرِ علمی ہے اور اس کی عزت و حرمت مجھے آج بھی اسی طرح عزیز ہے جیسے اپنے زمانہ طالب علمی میں تھی لیکن خبروں میں بار بار جس انداز سے جامعہ کراچی کا تذکرہ کیا جا رہا ہے مجھے اس میں کسی گھناؤنی سازش کی بُو آرہی ہے۔ اس سازش کا سب سے پہلا اور غالباً سب سے زیادہ فائدہ ان ’’پرائیویٹ یونیورسٹیز‘‘ کو ہو گا جو کراچی میں جگہ جگہ اپنے ’’کیمپس‘‘ کھول کر بیٹھی ہیں۔ دوسرا بڑا فائدہ سندھ حکومت کو ہو گا جو جامعہ کراچی میں داخلوں کے عمل کو مزید دشوار بنا سکتی ہے اور کوئی بعید نہیں کہ آنے والے مہینوں میں ’’سیکیوریٹی‘‘ کے نام پر جامعہ کراچی کےلیے مختص بجٹ کا بڑا حصہ کسی اور کے حوالے کیا جانے لگے۔ اسے کراچی اور جامعہ کراچی، دونوں کےلیے حکومتِ سندھ کی شدید نفرت کا نتیجہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ آج قلاش ہو چکی ہے اور اس کا وائس چانسلر پریس کانفرنس میں یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اسے ہر مہینے 15 تاریخ کے بعد صرف یہ فکر ہوتی ہے کہ یونیورسٹی ملازمین کو اگلے مہینے کی تنخواہ کیسے دی جائے گی۔ مسائل اس سے کہیں زیادہ شدید، ہمہ گیر اور گمبھیر ہیں؛ باتیں اور بھی ہیں مگر ان سے پہلے کچھ اور کہنا چاہوں گا۔

جامعہ کراچی کو دہشت گردی سے نتھی کرنے کی یہ کہانی عیدالاضحی کے روز متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے خواجہ اظہار الحسن پر حملے سے شروع ہوئی۔ اس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جس انداز سے پھرتیاں دکھائیں اور بارہ افراد پر مشتمل ایک دہشت گرد تنظیم کو ’’بے نقاب‘‘ کیا، اسے میرا ذہن کسی بھی طرح بطور حقیقت قبول کرنے کو تیار نہیں۔ خبروں میں ’’جامعہ کراچی میں دہشت گرد گروہ‘‘ جیسے الفاظ کی تکرار جس لب و لہجے کے ساتھ کی جا رہی ہے اس میں خبریت اور خبر نگاری سے زیادہ تعصب کا عنصر نمایاں ہے۔ یہ مسئلہ ہمارے تمام اعلی تعلیمی اداروں کا ہے لیکن صرف جامعہ کراچی کا نام بار بار لے کر اس تاثر کو تقویت پہنچائی جا رہی ہے کہ جامعہ کراچی میں درس و تدریس اور تحقیق جیسے کام نہیں ہوتے بلکہ دہشت گردوں ہی کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔

اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اب تک جامعہ کراچی سے فارغ التحصیل طلبہ کی کسی بھی تنظیم نے اس رجحان کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی ہے۔ سوشل میڈیا پر جامعہ کراچی کی اساتذہ تنظیم نے احتجاج کا سلسلہ ضرور شروع کیا ہے جبکہ گزشتہ روز ڈان نیوز کے پروگرام ’’ذرا ہٹ کے‘‘ میں وسعت اللہ خان، ضرار کھوڑو اور مبشر زیدی نے اس پہلو کی طرف بخوبی توجہ مبذول کرائی کہ پاکستان کی مختلف جامعات میں انتہا پسند مذہبی تنظیموں سے وابستہ افراد کی اطلاعات آج کی نہیں بلکہ کم از کم سات سال پرانی ہیں۔

تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس بارے میں کوئی مؤثر حکمتِ عملی مرتب نہیں کی گئی؟ اور اگر یہ کہا جائے کہ نیشنل ایکشن پلان میں ’’شدت پسندانہ رجحانات کے خاتمے‘‘ (ڈی ریڈیکلائزیشن) کی شقیں موجود ہیں تو انہیں اب تک نظر انداز کیوں کیا جا رہا ہے؟ کیا اس تناظر میں اساتذہ، طالب علموں، غیر تدریسی عملے اور والدین کی شعوری تربیت ضروری نہیں تھی؟ ان سوالوں کے جوابات موجودہ اور سابق، دونوں وزرائے داخلہ کے پاس اگر موجود بھی ہوں گے تو شاید وہ سیاسی مصلحتوں کی بناء پر ان کے بارے میں کچھ کہنے سے گریزاں ہیں۔ جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ خبروں میں ان تمام نکات و سوالات پر بحث کے بجائے دہشت گردی کی نسبت سے بار بار جامعہ کراچی کا نام لیا جا رہا ہے، تو میرا دل بے چین ہو جاتا ہے؛ اور مجھے اس سارے معاملے میں اپنی مادرِ علمی کے خلاف کسی گہری سازش کی بدبو محسوس ہونے لگتی ہے۔

یہ خبریں دیکھنے، سننے اور پڑھنے کے بعد عام لوگوں میں جامعہ کراچی کا کیا تاثر بنے گا ؟ اس بارے میں کوئی نہیں سوچ رہا۔ جنہوں نے جامعہ کراچی نہیں دیکھی، وہ اس کے نام سے بھی ڈرنے لگیں گے۔ وہ سمجھیں گے کہ جامعہ کراچی میں قدم رکھتے ہی ان کے سامنے داعش یا طالبان کے مسلح دہشت گرد موجود ہوں گے جبکہ جامعہ کے تمام شعبہ جات میں شدت پسندی کی تدریس جاری ہو گی۔ جو والدین پچھلے سال تک یہ سوچ رہے تھے کہ اپنے بچوں کو اچھی اور کم خرچ تعلیم کے لیے جامعہ کراچی بھیجیں گے، شاید وہ خود کو اپنی اِس رائے پر نظر ثانی کے لیے مجبور محسوس کر رہے ہوں گے۔

مجھے خدشہ ہے کہ ان خبروں کی وجہ سے جامعہ کراچی کو تحقیقی تعاون کی مد میں ملنے والی رقوم پر بھی اثر پڑے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پی ایچ ڈی کی غرض سے جامعہ کراچی آنے والے طالب علموں کا سلسلہ رکوا دیا جائے۔ (جی ہاں! جامعہ کراچی میں جرمنی اور فرانس تک سے طالب علم پی ایچ ڈی کرنے آتے رہتے ہیں۔) اگر ہمارے میڈیا پر سازشی اور متعصب عناصر کا غلبہ نہیں تو پھر یہ مان لینا چاہیے کہ میڈیا نمائندگان اور ذمہ داران، دونوں ہی اس شعور سے عاری ہیں کہ ان کی خبروں میں استعمال کی جانے والی زبان اور مخصوص الفاظ کی تکرار ان کے سامعین، ناظرین اور قارئین پر کیا اثر چھوڑے گی… اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا!

میں یہ نہیں کہتا کہ جامعہ کراچی میں ’’سب کچھ ٹھیک ہے‘‘ لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ پڑھنے کے لیے یہ بری جگہ ہر گز نہیں بلکہ متوسط طبقے کے نوجوانوں کو کم خرچ پر اعلی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کےلیے موزوں ترین جگہوں میں سے ایک جگہ ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ جامعہ کراچی کی قدر و منزلت کو صحیح معنوں میں اجاگر کرنے اور اسے درپیش مسائل کو حل کرنے میں مدد دینے کے لیے کوئی پلیٹ فارم ہی نہیں۔ یونی کیرینز والے ہر سال ایک دو مشاعرے کروا دیتے ہیں اور بس۔ رہا سوال جامعہ کراچی میں ’’طلبا تنظیموں‘‘ کا تو وہ ساری کی ساری ہی (عملاً یا نظریاتی اعتبار سے) کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ یعنی یہاں ایسی کوئی طلبا تنظیم موجود ہی نہیں جسے صحیح معنوں میں ’’طالب علموں‘‘ کی نمائندہ قرار دیا جا سکے۔ ( یاد رہے کہ ماضی میں ’’اسٹوڈنٹ یونینز‘‘ کے عنوان سے جامعات میں طلبا تنظیمیں ہوا کرتی تھیں، جو آج قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔)

وہ تو شکر ہے کہ شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر اجمل خان نے آج (8 ستمبر 2017، بروز جمعہ) اپنی پریس کانفرنس میں دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ جامعہ کراچی میں دہشت گرد پیدا ہو رہے ہیں؛ اور یہ کہ ایسا کہہ کر جامعہ کراچی کا نام خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ جامعہ کراچی میں دہشت گرد تنظیموں کی مبینہ سرگرمیوں کے حوالے سے اب تک ساری اطلاعات انہیں میڈیا کے توسط سے ملی ہیں جبکہ سیکیوریٹی ایجنسیوں نے انہیں کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔ اس سے بڑھ کر المیہ اور کیا ہو گا کہ پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ کے وائس چانسلر کو اپنی ہی جامعہ سے متعلق خبروں کےلیے میڈیا پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔

اپنی پریس کانفرنس میں انہوں نے بھی طلبا یونین بحال کرنے کا خیال ظاہر کیا جس کا مطالبہ اب مختلف حلقوں کی جانب سے شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ’’قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے‘‘ کے مصداق، جامعہ کراچی کے موجودہ حالات سے ڈاکٹر اجمل مجھ سے کہیں بہتر طور پر واقف ہیں۔ ان کا اندرونی کرب پریس کانفرنس کے دوران چھپائے نہیں چھپ رہا تھا۔ کچھ بھی کہیے، آخر وہ بھی جامعہ کراچی ہی کے فارغ التحصیل ہیں۔ مجھے پاکستانی میڈیا سے شکوہ ہے کہ جب ڈاکٹر اجمل نے اسی جامعہ کراچی میں ایسے پودوں پر تحقیق کی جو نمک زدہ زمین پر بھی آسانی سے اُگ سکتے ہیں (جنہیں ہیلو فائٹس کہا جاتا ہے) تو میڈیا نمائندوں کے پاس اس خبر کےلیے فرصت نہیں تھی۔

جب ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری اور ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ کو یکجا کر کے ’’انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بایو لاجیکل سائنسز‘‘ کا درجہ دیا گیا جو ترقی پذیر دنیا میں اپنی نوعیت کا (غالباً) واحد ادارہ ہے تو پاکستان کے ’’مین اسٹریم میڈیا‘‘ نے ڈاکٹر عطا الرحمان یا ڈاکٹر اقبال چودھری سے رابطہ نہیں کیا اور نہ میڈیا اس بات کی اہمیت کو سمجھ ہی سکا۔ جب جامعہ کراچی میں ٹیکنالوجی انکیوبیٹرز نے کام شروع کیا تب بھی میڈیا میں اس حوالے سے بے خبری ہی سکہ رائج الوقت رہی۔ (یادداشت کے سہارے صرف چند واقعات جلدی جلدی لکھ ڈالے ورنہ یہ فہرست بہت طویل ہے۔)
لیکن جب دہشت گردی کا معاملہ ہوتا ہے تو یہی میڈیا گلا پھاڑ کر چلانا شروع کر دیتا ہے اور ’’جامعہ کراچی‘‘ کے ساتھ ’’دہشت گرد‘‘ کا لفظ ایسے جوڑ دیتا ہے جیسے یہ کوئی اعلی تعلیمی درسگاہ نہ ہو بلکہ دہشت گردوں کی تربیت گاہ ہو۔

دوسری جانب جامعہ کراچی کا شعبہ تعلقاتِ عامہ (پبلک ریلیشنز) بھی کچھ کم قصور وار نہیں۔ اس کے ذمہ داران بڑے اخبارات، رسائل اور نیوز چینلوں سے تعاون کرنے کےلیے ہر وقت ’’دیدہ و دِل فرشِ راہ‘‘ کیے تیار رہتے ہیں لیکن اگر ہمارے جیسا کوئی معمولی صحافی کسی ریسرچ پروجیکٹ کے بارے میں دریافت کرنے جا پہنچے تو یوں لگتا ہے جیسے وہ غیر ملکی جاسوس ہے جو کسی ’’خفیہ سرکاری منصوبے‘‘ کی تفصیلات معلوم کرنے آن دھمکا ہے۔ اس بے چارے سے ضابطے کی ایسی ایسی کارروائیاں پوری کرنے کو کہا جاتا ہے جن کی تکمیل میں مہینوں گزر جاتے ہیں اور اس تحقیق کی خبر اپنی ہی قبر میں دفن ہوچکی ہوتی ہے۔

یوں لگتا ہے جیسے اس وقت یہ شعبہ صرف اس لیے مجبوراً ہوش آیا ہے کیونکہ جامعہ کراچی کی عزت پر حرف آچکا ہے اور یہاں کام کرنے والوں کی اپنی ملازمتیں بھی داؤ پر لگ چکی ہیں۔ انہیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ورنہ آنے والے وقت میں ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اور جامعہ کراچی کا مؤقف بھی ٹوٹے پھوٹے اور لنگڑے لولے انداز میں سامنے آتا رہے گا۔ یہ وقت ان لوگوں کےلیے بھی لمحہ فکریہ ہے جو جامعہ کراچی سے محبت کے دعویدار ہیں۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ کراچی یونیورسٹی سے ان کی محبت کسی اجتماعی و عملی تدبیر کو جنم دیتی ہے یا پھر باسی کڑی میں اُبال ہی ثابت ہوتی ہے۔ مجھے جو مناسب لگا، میں نے لکھ دیا۔ آپ مجھ سے اختلاف یا اتفاق کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں۔

علیم احمد
 

Post a Comment

0 Comments