Ticker

6/recent/ticker-posts

ایم کیو ایم، نامعلوم افراد

کراچی کی سیاست پھر ایک نئے بحران کا شکار ہو گئی۔ گورنر سندھ محمد زبیر عمر کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار، پاک سرزمین پارٹی سے اتحاد کے لیے دباؤ کا شکار تھے۔ مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ فاروق ستار کو ایم کیو ایم کا سربراہ کور ہیڈ کوارٹر میں بنایا گیا تھا ۔ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے ملاپ کا تجربہ فی الحال ناکام ہو گیا۔ فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کے خلاف سندھ کی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے کارروائی کا فیصلہ کر لیا ۔ سندھ کے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے ڈائریکٹر نے اپنے ادارے کے سربراہ کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ کراچی کے سابق میئر ڈاکٹر فاروق ستار، سابق ناظم مصطفیٰ کمال اور نائب ناظمہ نسرین جلیل اپنے ادوار میں اختیارات کے ناجائز استعمال کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ان دونوں سربراہوں نے اپنے ادوار میں کراچی کی پہلی سرکاری سٹی پورٹ اینڈ ٹیلیگراف (P&T) کالونی کی زمین اپنے کارکنو ں کو دیدی۔ ڈائریکٹر نے اپنی تحقیقات کی روشنی میں ان رہنماؤں کے قبضے سے فائدہ اٹھانے والے کارکنوں کے علاوہ دیگر اعلیٰ افسران عبدالعزیز اشرفی، لالہ فضل الرحمن اور ایم کیو ایم کے لاپتہ رہنما متین یوسف کو بھی اس اسکینڈل کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

ایم کیو ایم یوں تو اپنے قیام کے بعد سے ہی کسی نہ کسی بحران کا شکار رہی، الطاف حسین کی 22 اگست 2016 کو کراچی پریس کلب کے سامنے تقریر اور فاروق ستار، وسیم اختر، عامر خان، نسرین جلیل اور کشور زہرہ وغیرہ کے اپنے قائد سے لاتعلقی کے فیصلے کے بعد سے یہ بحران شدید ہو گیا۔ گزشتہ سال سے مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کے پاک سرزمین پارٹی کے قیام کے بعد کئی رہنما اور کارکن اس جماعت میں شامل ہوئے۔ شامل ہونے والوں میں کئی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین بھی شامل تھے۔ مصطفیٰ کمال اپنی تقاریر میں بار بار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اردو بولنے والے عوام کی اکثریت ان کے ساتھ ہے۔

انھوں نے شاہراہِ فیصل پر ملین مارچ کے لیے ہفتوں پبلسٹی کی تھی مگر یہ ملین مارچ تعداد کے لحاظ سے تین سے چار ہندسوں کے درمیان محدود رہا، مگر پی ایس پی میں شامل ہونے والے کسی منتخب رکن نے اپنی مستعفی ہونے والی نشست پر دوبارہ انتخاب نہیں لڑا۔ نامعلوم وجوہات کی بناء پر الیکشن کمیشن نے کراچی کی کئی خالی نشستوں پر ابھی تک انتخابی شیڈول کا اعلان نہیں کیا ۔
ایم کیو ایم پاکستان نے محمود آباد اور ملیر کے علاقوں سے خالی ہونے والی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا مگر ایم کیو ایم کوئی بھی نشست حاصل نہ کر سکی۔ گزشتہ دنوں ایم کیو ایم کی قیادت نے اعلان کیا تھا کہ اگر ان کے کسی رکن اسمبلی کو پی ایس پی میں شامل کرایا گیا تو ایم کیو ایم کے منتخب اراکین اپنی نشستوں سے مستعفی ہو جائیں گے مگر ڈپٹی میئر کراچی ارشد وہرہ کی پی ایس پی میں شمولیت کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں نے اپنے اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا۔ ایم کیو ایم کی پالیسیوں میں گزشتہ سال سے کئی اہم تبدیلیاں آئیں۔

ایم کیو ایم کے اراکین نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو اعتماد کا ووٹ دیا اور ان کے سینیٹ کے رکن نے نا اہل فرد کو پارٹی کا سربراہ بنانے کے حوالے سے سینیٹ میں پیش کیے جانے والے قانون کی حمایت کی، یوں ایم کیو ایم کے روایتی مخالف تحریک انصاف سے خوشگوار تعلقات کی ابتداء ہوئی۔ تحریک انصاف کے رہنما مخدوم شاہ محمود قریشی نے پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے لیے ایم کیو ایم کی قیادت کو تیار کیا تاکہ احتساب بیورو کے سربراہ، چیف الیکشن کمشنر اور وفاق میں قائم ہونے والی عبوری حکومت کے قیام میں پیپلزپارٹی کا کردار ختم کیا جائے مگر حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں نے اس تجویز کی پذیرائی نہیں کی۔ ایم کیو ایم نے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر نئے احتساب کے قانون میں ججوں اور جنرلوں کو احتساب کے دائرے میں لانے کی شق کی مخالفت کی، مگر ایم کیو ایم کی بنیادی پالیسی میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہونے کے باوجود ان کے اراکین کے ٹوٹنے اور پی ایس پی میں شامل ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔
گزشتہ دنوں ایف آئی اے نے ایم کیو ایم کے ایک مفرور رہنما حماد صدیقی کو دبئی میں گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بلدیہ گارمنٹس فیکٹری میں آتشزدگی سمیت دہشت گردی کی متعدد وارداتوں کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ ایف آئی اے کی رپورٹنگ کرنے والے بعض صحافیوں نے یہ لکھنا شروع کیا کہ حماد صدیقی بہت سے سنگین جرائم میں ملوث ہے، ان کے بیان کے بعد ایم کیو ایم کے کئی رہنما مشکلات کا شکار ہوں گے۔

اس پس منظر میں ڈاکٹر فاروق ستار اور پی ایس پی کے رہنماؤں کے درمیان خفیہ طور پر مذاکرات ہوئے اور پھرکراچی پریس کلب میں دونوں جماعتوں نے اتحاد کر کے ایک جماعت بنانے پر اتفاق کیا۔ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ ملک کی جمہوری حکومت بھی نامعلوم افراد کی مداخلت سے خوش نہیں تھی اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں میں شناخت کھونے کا خوف بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کی قیادت نے فوری طور پر اس معاہدے کو مسترد کر دیا۔ ایم کیو ایم اپنے قیام کے بعد سے ایک بند جماعت کے طور پر ابھری۔ ایم کیو ایم جلد ہی کراچی اور حیدرآباد کی مقبول ترین جماعت بن گئی۔

اگرچہ ایم کیو ایم میں تعلیم یافتہ افراد کی تعداد بہت زیادہ تھی مگر اس کی قیادت نے تشدد کو اپنی مقبولیت کے لیے استعمال کیا جس کے نتیجے میں 1986 سے 2010 تک کراچی خاص طور پر امن و امان کے حوالے سے پوری دنیا میں بدنام ہوا ۔ اس پالیسی کے نتیجے میں سندھ میں آباد پختونوں، پنجابیوں اور سندھیوں سے خون ریز فسادات کی تاریخ رقم ہوئی۔ فسادات کا سلسلہ ختم ہوا تو ایم کیو ایم کے جنگجوؤں پر فرقہ وارانہ، سیاسی، لسانی اور نامعلوم وجوہات کی بناء پر ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونے کے الزامات لگے۔ اس ٹارگٹ کلنگ کا شکار ایم کیو ایم کے بانی عظیم طارق اور سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عمران فاروق سمیت ایم کیو ایم کے کئی رہنما بنے۔ دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کے علاوہ اساتذہ، ڈاکٹروں، طلبہ، صحافیوں اور مذہبی رہنماؤں سمیت دیگر افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے الزامات بھی ایم کیو ایم پر لگے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور صدارت میں ایم کیو ایم کو سندھ کی گورنری ملی اور انھیں سندھ حکومت کے فیصلوں میں نمایاں مقام ملا۔ اس کے علاوہ وفاق میں بھی اہم وزارتیں دی گئیں مگر ایم کیو ایم نے اپنے عسکری ونگ کو ختم نہیں کیا۔ جب پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری ملک کے صدر بنے تو وہ خود نائن زیرو گئے اور پیپلز پارٹی کی چیرہ دستی پر معذرت کی اور ایم کیو ایم کی قیادت نے بھی جواب میں اپنے سیاہ کارناموں پر معذرت کی اور مستقبل میں ساتھ چلنے کا عہد کیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے اچھی طرز حکومت کو نظر انداز کیا اورکرپشن کو اپنی پالیسی کی بنیاد بنایا یوں کراچی اور دیگر شہر کوڑے دان میں تبدیل ہو گئے۔ ایم کیو ایم کے عسکری ونگ نے کراچی میں اپنی کارروائیاں جاری رکھیں ۔

یہی وجہ تھی کہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کی کارروائی کے بعد فوج اور میاں نواز شریف کی حکومت نے مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق کیا، پورے ملک میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف آپریشن شروع ہوا مگر کراچی سینٹرل اور ایسٹ کے اضلاع میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ خفیہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے افسران پریس بریفنگ میں یہ سوال اٹھانا شروع ہو گئے کہ ایم کیو ایم ڈسٹرکٹ سینٹرل کی نمایندہ تنظیم ہے اور اس کے کارکن ہرگلی میں موجود ہیں پھر نامعلوم افراد کس طرح ٹارگٹ کلنگ کر کے اپنے خفیہ ٹھکانوں پر پہنچ جاتے ہیں؟ اس دوران ایم کیو ایم کی قیادت نے اپنے کارکنوں کے لاپتہ ہونے پر شہر میں ہڑتالیں کرائیں، رینجرز نے نائن زیرو پر چھاپہ مارا۔ اس کے بعد ڈسٹرکٹ سینٹرل میں امن ہو گیا۔ اب بھی ایم کیو ایم کے بہت سے کارکن حراست میں ہیں اورکئی سو جیلوں میں بند ہیں۔ ایم کیو ایم کا بحران اس کی عسکری سرگرمیوں کی بناء پر ہے۔ ایم کیو ایم پہلے ملکی ایجنسیوں کے تابع تھی پھر اس کے معاملات بین الاقوامی ایجنسیوں سے منسلک ہو گئے جس بناء پر نامعلوم قوتوں کا کردار بڑھ گیا۔ اب ایم کیو ایم کے تمام گروپوں کو قانونی سرگرمیوں کی اجازت ہونی چاہیے۔ یہ ایک سیکیولر تنظیم ہے جس کی صوبہ سندھ اور ملک کو ضرورت ہے، اگر ایم کیو ایم کی قیادت علیحدہ صوبے کے نعرے کے بجائے سندھ میں مظلوم عوام کے لیے جدوجہد کرے گی تو یہ نہ صرف صوبے اور ملک کے لیے بہتر ہو گا بلکہ جمہوری نظام بھی مکمل ہو گا اور نامعلوم قوتوں کا کردار کم ہو جائے گا۔

ڈاکٹر توصیف احمد خان
 

Post a Comment

0 Comments