Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی کے مسائل اور اُن کا حل

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں امن وامان کی صورتحال پہلے کی
نسبت اب کافی بہتر ہو چکی ہے، اس کی بڑی وجہ ’کراچی آپریشن‘ ہے اور اب دنیا اسے محفوظ شہروں میں شمار کرتی ہے۔ کراچی میں ٍتین بڑے مسائل ہیں، جرائم یا دہشتگردی، سیاسی ناانصافی اور معاشی حب ہونے کے باوجود اسے کبھی اس کا لازمی حصہ نہیں دیا گیا۔ اگر ہم کراچی میں امن وامان کی فضا کو برقراررکھنا چاہتے ہیں تو یہ بہت اہم ہے کہ امن و امان کے علاوہ شہر کے بڑے مسائل کو بھی حل کیا جائے اور ہم تاحال اس سے بہت دور ہیں، جس کی وجہ سے 2 کروڑ کا یہ شہر بے لگام ہے اور کوئی بھی ’ذمہ داری‘ لینے کیلئے تیار نہیں لیکن ہر کوئی اپنا ’حصہ‘ لینا چاہتا ہے۔ 

یہ وقت ہے کہ ہم کراچی کی جانب نسلی تعصب کے بغیر دیکھیں یا اسے کسی ایک پارٹی یا گروہ کے شہر کے طور پر دیکھنا بند کریں۔ سیاسی لیڈرشپ یا حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ شہر صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کراچی لاہور یا اسلام آباد جیسا کیوں نہیں بن سکتا ؟ کراچی جیسے شہر کا نظام اس طرح سے نہیں چل سکتا جس طرح سے گزشتہ 70 سال سے چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگرچہ اب یہ تاریخ ہے کہ وفاقی دارالحکومت کو کراچی سے اسلام آباد شفٹ کرنا کراچی اور سندھ کے لوگوں کا سب سے بڑا نقصان تھا۔ دیگر شہروں سے لوگوں کی آمد اس بات کی علامت ہے کہ شہر مناسب منصوبہ بندی کے تحت آباد ہے۔ 

کراچی کی ذمہ داری لینا سب سے بڑی مشکل رہی ہے جس کی وجہ سے بعد میں آنے والی حکومتوں نے اپنے معاشی حب میں کوئی دلچسپی نہیں لی، اس شہر سے بد ترین حالات میں بھی 70 فیصد آمدنی آتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے بطور قوم اس شہر کے ساتھ اچھا نہیں کیا، یہ شہر ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس کے باعث سیاست اور حکومت میں منفی رجحانات پیدا ہوئے۔ آج یہ شہر بے قابو ہو چکا ہے اور اگر ہم نے مسائل حل نہ کیے توجلد ہی یہ حکومت کے قابل بھی نہیں رہے گا۔ لہذا مسئلے کا حل کیا ہے اور حکومتیں کیوں ناکام ہوئیں، اس کےنتیجے میں ایم کیوایم جیسی پارٹیاں بنیں۔ چاہے پارٹی قائم رہے یا ختم ہو جائے لیکن اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو اس سے مزید افراتفری پھیلے گی جسے قابو کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ کراچی کے مسئلے کا حل تمام سیاسی اور نسلی مفادات سے بالاتر ہوکر نکالنا ہو گا۔ 2017 کی مردم شماری میں سنجیدہ نوعیت کے شکوک و شبہات پیدا کیے گئے ہیں اور حتٰی کہ آزاد مبصرین نے بھی مردم شماری کے نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا۔ 

اس کی آبادی کی درست تصویرپیش نہ کرنا بھی معاشی حب کی لیے ایک تعصبانہ سوچ ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ شہر کی آبادی 2 کر وڑ سے زائد ہے۔ لہذا، اگر ہم کراچی کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں تو اس سوچ کو بدلنا ہو گا۔ (1) کراچی کی صحیح آبادی کا تعین کیا جائے اور اس کے مطابق ایک ایسا ’ماسٹر پلان‘ تیار کیا جائے اس کے بغیر آپ شہر کی ترقی کیلئے اسے اس کا صحیح حصہ نہیں دے سکتے۔ (2) کراچی کو میٹرو پولیٹن شہر کا درجہ دیا جائے بالکل اسی طرح جس طرح دنیا بھر میں تمام میٹرو پولیس یا بڑے شہروں کو دیا جاتا ہے۔ (2) خواہ براہ راست انتخابات سے یا موجودہ بلدیاتی نظام کے ذریعے، منتخب میئر پورے شہر کا ’فادر‘ ہونا چاہیئے نہ کہ صرف 34 فیصد کا۔ (4) تمام سیاسی اور نسلی تعصبات سے بالاتر اور بغیر کسی سیاسی مداخلت کے کراچی کا اپنا پولیس کمشنر اور مقامی پولیس سسٹم ہونا چاہئے۔ (5) نوکریوں اور تعلیم میں میرٹ کےنظام کو فروغ دینا چاہئیے۔ (6) کراچی کو ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جائے اور آرٹسل کونسل آف کراچی اور نیپا جیسے اداروں کو بڑھ چڑھ کر کام کرنا چاہئیے ۔ 

شہر کو ایسی ’فوڈ سٹریٹ‘ کی ضرورت نہیں ہے جو بغیر منصوبہ بندی کے بنائی جائیں۔ (7) اب وقت ہے کہ کراچی میں کھیل کے میدان اور پارکس کو بحال کیا جائے۔ تقریباً 80 فیصد گرائونڈ اور پارکس کو ’فروخت‘ کر دیا گیا ہے۔ (8) گزشتہ کئی سال سے سازش کے تحت بڑھتی ہوئی کچی آبادیوں کا ایک بڑا اسکینڈل بن چکا ہے، ان کی تعداد اب تقریباً 7ہزار ہے۔ (9) دہشتگردی اور امن وامان کی صورتحال مسئلےکا صرف ایک پہلو ہے اور شہر دہائیوں تک ’رینجرز یا پیرا ملٹری‘ یا نامکمل آپریشن کےذریعے نہیں چل سکتا۔ اس کے لیے پائیدار سیاسی حل اور مسائل حل کرنے کی خواہش ہونی چاہئیے۔ لہذا، وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت کا کردار اہم ہے۔ لیکن انھیں مسئلے کا حل ’نسلی تعصب‘ سے بالاتر ہو کر تلاش کرنا ہو گا۔ (10) کراچی آپریشن کے بعد کراچی کو تیز رفتار ’کراچی ایکشن پلان‘ کی ضرورت ہے۔

کیا آپ کسی ایسے میٹرو پولیٹن شہر کا تصور کر سکتےہیں جس کیلئے 40 سال تک کوئی ماسٹر پلان تیار نہ کیا گیا ہو اور جو تیار ہوا اس میں ویژن کی کمی تھی۔ جو شہر کبھی کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت چلتا تھا ، اس اب تقسیم کر دیا گیا اور کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈیفنس ہائوسنگ اتھارتی کے اچانک سے پھیلائو کے بعد صورتحال مزید خراب ہو گئی۔ بہت زیادہ کرپشن کے باعث کراچی کے بڑے ڈویلپمنٹ پراجیکٹس کو مکمل ہونے میں 10 سے 40 سال لگتے ہیں مثلاً کراچی ماس ٹرانزٹ، کراچی سرکلر ریلوے، لیاری ایکسپریس وے اور اس کے نتیجے میں حل ہی مسئلہ بن جاتا ہے۔ کراچی میں بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے اور سوائے ایک یا دو کہ اس کے تمام فلائے اوورز، انڈر پاس سے ایسے انجینئرز کی نالائقی جھلکتی ہے جن میں ویژن کی کمی تھی۔ 

لیکن وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کروڑ پتی اور ارب پتی بنتے گئے۔ بدقسمتی سے ہر پارٹی اور گروپ حتی کہ حکومتیں اور اسٹیبلشمنٹ بھی تمام نظریات اور وجود کے ساتھ ’ایم کیوایم کے خاتمے‘ کا انتظار کر رہی ہیں۔ ایم کیوایم بچ سکتی ہے یا طبعی یا غیرطبعی موت مر سکتی ہے لیکن اگر مسئلہ اربن سندھ میں برقرار رہا تو اس سے مستقبل میں ایم کیوایم کی طرح ایک اور پارٹی جنم لے سکتی ہے۔ 2013 میں ’کوٹہ سسٹم‘ ختم کرنے میں تقریباً چاردہائیاں لگیں۔ میں ہمیشہ یہ مانتا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں کوٹہ سسٹم کے پیچھے بری سوچ نہیں تھی، اس سے سندھی مڈل کلاس اور معاشرے کےمحروم طبقے کی ترقی مقصود تھی، لیکن اس کا نفاذ بری طرح کیا گیا اور اس سے مہاجر سیاست کی بنیاد پڑی۔ وہ صرف 10 سال کے لیے کوٹہ سسٹم کا نفاذ چاہتے تھے لیکن بعد میں آنےوالی حکومتوں نےاسے ’سیاسی مقاصد‘ کیلئے استعمال کیا، اس سےمزید فاصلے پیدا ہوئے اور انھوں نے دیہی سندھ میں تعلیم کی ترقی کیلئے کبھی کوشش نہیں کی۔

کراچی کے مسائل مزید بڑھ گئے کیونکہ کسی حکمران نے ’دیہی اور شہری‘ تقسیم ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے برعکس حکمرانوں نے مسئلے کو سیاسی رنگ دیا اورسیاسی مقاصد کیلئےمزید تقسیم پیدا کی۔ بدقسمتی سےتاحال یہ سوچ تبدیل نہیں ہوئی اور ہم کراچی کے شہریوں اور مہاجروں میں فرق کرنے کے قابل ہی نہیں ہوئے۔ مکمل کراچی کو ایک خاص ذہنیت سے دیکھنا ہی مسائل کی اصل وجہ ہے۔ اگر جنرل ضیاءاور جنرل پرویز مشرف نے مہاجروں کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا تو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتیں شہر میں سٹیک ہولڈرز بن سکتی تھیں، انھوں نے شہر کی ذمہ داری لینے کی بجائے اس کے ساتھ تعصبانہ سلوک کیا۔ اگر پی پی پی مذکورہ بالا تجاویز پرعمل کرے تووہ شہر کنٹرول کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔

ہماری سیاسی جماعتوں کا مسئلہ مقامی حکومتوں کے نظام کو فروغ نہ دینا رہا ہے۔ مقامی حکومتوں کو مضبوط کرنے، انھیں معاشی اور انتظامی اختیارات دینے کے بجائے صوبائی حکومتیں نظام کو براہِ راست کنٹرول کرنا چاہتی ہیں۔ کراچی سندھ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔ لہذا حکومت کو اس کے ساتھ دنیا کیلئے ایک ’چہرے‘ کے طورپرسلوک کرنا چاہیئے۔ سندھ خوش قسمت ہے کہ یہ شہر کمرشل ہے اور ملک کا معاشی مرکز ہے۔ لیکن کوئی بھی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔ اس سے تعصب جھلکتا ہے اور اس میں کوئی حیرانی نہیں ہے کہ کیوں کراچی میں نسلی، فرقہ ورانہ اور سیاسی تشدد ہوا جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد مارے گئے۔

مظہرعباس

Post a Comment

0 Comments