Ticker

6/recent/ticker-posts

ٹارگٹ بلنگ شہرِ قائد کے باسی اب کیا کریں ؟

مہنگائی کا سامان کیا جا رہا ہے۔ ماہانہ بجلی کا بل دیکھ کر عوام بلبلاجاتے ہیں۔ بجلی کے نرخوں کی بڑھتی ہوئی شرح نے عوام پر بجلی ہی گرا دی حالانکہ بجلی گرانے کے لئے بجلی کا ہونا بھی ضروری ہے اور بجلی ندارد! ان حالات میں قلیل آمدنی والے صارفین دُہائیاں دے رہے ہیں کہ یہ بوجھ ان کی ناتواں آمدنی پر بوجھ گراں ہے۔ ستم بالائے ستم اکثر لوگوں کے لئے بھاری بھرکم واجبات کی ادائیگی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ بس پھر کیا دل نے عقل کی پاسبانی سے چھٹکارا پاتے ہوئے چپکے سے کان میں سرگوشی کی کہ جس کی شرح بلند ہو وہ بل نہ کر قبول اور یوں پوری قوم سراپا احتجاج بن گئی۔ 

ابھی اس ناگہانی آفت سے صارفین نبرد آزما ہی تھے کہ بل پر لگائے جانے والے اضافی ٹیکسوں نے تو رہی سہی کسر ہی پوری کر دی ۔ ٹیکسوں کی اتنی زیادہ شرح صارف کے ساتھ بہت ناانصافی ہے! اس دور پُرفتن میں جب ہر چیز مہنگائی کی لپیٹ میں ہے تو دوسری جانب بغیر ریڈنگ بل بھیجنا کے الیکٹرک کی عادت ثانیہ بن چکی ہے، میٹر ریڈر نے گھر گھر جا کر میٹر ریڈنگ لینے جیسی مشقت اٹھانے کی بجائے اک نیا طریقہ اپنا شعار بنا لیا ہے کہ کسی کیفے میں بیٹھ کر چائے کے ساتھ گرما گرم سموسوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بل مرتب کرتے ہوئے ذرا نہیں ہچکچاتے۔ 

متعدد بل بلڈنگ میں موجود پورشن کے حساب سے بنائے جاتے ہیں۔ بسا اوقات ریڈنگ میں نمبروں کی ترتیب تبدیل کر کے بھی بلوں کی مد میں زائد رقم بٹورنے کی مجرمانہ کوشش بھی کے الیکٹرک کے بلنگ ڈپارٹمنٹ کی نااہلی اور بد عنوانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جن گھرانوں میں دو وقت روٹی کا حصول دقت طلب امر ہو، جن صارفین کی آمدنی 15 ہزار ہو وہ پانچ سے 10 ہزار کا بل کس طور ادا کر سکتے ہیں ۔ خاص طور پر وہ گھرانے جہاں اے سی، ائیر کولر، ریفریجریٹر اور دیگر الیکٹرونکس اشیا کا گزر تک نہیں ہوا، ان کے بل 4 سے 5 ہزار تک ہو جائیں تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ ایک بیوہ اپنا 10 ہزار کا بل دکھاتے ہوئے سر پکڑ کر کہنے لگی جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں۔ 

ابھی اس ناگہانی آفت سے پوری طرح نجات نہیں ملی تھی کہ اب ایک نئی افتاد آن پڑی ہے۔ جی جناب نئے میٹرز کے نام پر برق رفتار میٹر نصب کیے جارہے ہیں جن کی رفتار دیکھ کر بارہا گمان ہوتا ہے جیسے جہاز کے میٹر نصب کر دیے گئے ہیں مگر حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام اپنی تمام تر ضروریات اور اخراجات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ماہانہ بل پابندی سے ادا کر کے بھرپور انداز سے اپنے زندہ قوم ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ بھلا کوئی بتلائے کیا: مردہ بل خاک ادا کرتے ہیں؟

 صارفین کو موصول ہونے والے زائد بلوں پر جب لوگ درستگی بل کی غرض سے شکایتی مرکز جائیں تو یہ کہہ کر معاملہ رفع دفع کر دیا جاتا ہے کہ آپ اس ماہ کا بل جمع کروا دیں، جمع شدہ بل کی کاپی درخواست کے ساتھ لے آئیں ہم متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کو آپ کی شکایت فارورڈ کر دیں گے اور پھر صارفین نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے، کی عملی تفسیر بنے ان دفاتر کے چکر لگاتے لگاتے خود چکرا کر رہ جاتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں کے الیکٹرک سروس سینٹرز کی جانب سے شکایت کنندگان (صارفین ) کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے، متعلقہ عملہ مک مکا کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کچھ لو اور کچھ دو کا مطالبہ بھی کرتا ہے اور اب تو خواتین صارفین کو ہراساں کرنے جیسی حرکات بھی سننے میں آ رہی ہیں ۔

روشن آراء


 

Post a Comment

0 Comments