کہتے ہیں کہ سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے لیکن کراچی میں سفر وسیلہ بنتا ہے پریشانی اور جھجھنلاہٹ کا، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کراچی ایک ایسا شہر ہے جہاں سفر کے لیے کوئی مناسب نظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ دوسری جانب ٹرانسپورٹ کی مستقبل کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی فی الحال کوئی قابل ذکر منصوبہ بندی بھی دکھائی نہیں دیتی۔ ہم نے پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر کے ٹرانسپورٹ کے مسائل اور ان کے حل کے لیے حکومتی اقدامات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔
کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ، اعداود و شمار کیا کہتے ہیں؟ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شہر کی آبادی ایک کروڑ 90 لاکھ سے زیادہ ہے لیکن ایک تازہ ریسرچ کے مطابق شہر کی سڑکوں پر رواں دواں گاڑیوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا حصہ محض ساڑھے چار فی صد کے لگ بھگ ہے، جو زیادہ سے زیادہ 42 فی صد مسافروں کی ضروریات ہی پوری کر سکتا ہے۔ شہریوں کی اکثریت آمد و رفت کے لیے پرائیویٹ گاڑیوں کا استعمال کرتی ہے جو شہر کی کل ٹریفک کا تو 36 فیصد ہے لیکن اس سے صرف 21 فی صد مسافروں کی ضروریات ہی پوری ہوتی ہیں۔
کراچی میں رکشوں اور ٹیکسیوں کی تعداد شہر کی کل ٹریفک کا 10 فی صد ہے جو آٹھ فی صد مسافروں کو سفری سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ بسوں کی تعداد 4000 سے بھی کم ہے جو 56 لاکھ مسافروں کو سفر کی سہولت مہیا کرتی ہیں، یہ تعداد روزانہ سفر کرنے والوں کا 42 فی صد ہے۔ گویا کراچی میں ایک بس کے حصے میں یومیہ 257 مسافر آتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی حالت زار دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 1980 کی دہائی کے بعد سے اس نظام میں کوئی جدت نہیں لائی جا سکی۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی قلت کے باعث لوگوں کی اکژیت موٹر سائیکلوں یا اپنی ذاتی گاڑیوں میں سفر کرتی ہے۔
گزشتہ 11 سال سے صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے۔ ان کی جانب سے کئی بار شہر کی سڑکوں پر نئی بسیں لانے کے وعدے تو کیے گئے لیکن اس پر عمل نہیں ہو سکا جس پر انہیں سخت تنقید کا بھی سامنا رہا ہے۔ گزشتہ گیارہ برسوں کے دوران حکومت محض 10 نئی بسیں ہی سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہوئی جب کہ اس دوران 2008 میں متعارف کرائی گئی سی این جی کی 75 بسوں میں اکثر آہستہ آہستہ خراب ہو کر بند ہو گئی ہیں۔
مسئلے کے حل کے لیے کیا ہو رہا ہے؟ اگرچہ ٹرانسپورٹ آئینی لحاظ سے صوبائی معاملہ ہے لیکن ملک کی معاشی سرگرمیوں کے اہم مرکز کراچی میں ٹرانسپورٹ کے نظام میں بہتری کے لیے وفاقی حکومت بھی ایک بڑے منصوبے کی تکمیل میں مصروف ہے۔ وفاقی حکومت کے تحت کراچی انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی ماس ٹرانزٹ بس ریپڈ سسٹم کا 22 کلو میٹر طویل گرین لائن ٹریک تعمیر کر رہی ہے جو سرجانی ٹاؤن کو ایم اے جناح روڈ سے ملاتا ہے۔ اگرچہ اس منصوبے پر کام تیزی سے جاری ہے تاہم اس کی تعمیر میں 6 ماہ کی پہلے ہی تاخیر ہو چکی ہے اور حکام کے مطابق یہ پراجیکٹ سال کے آخر میں ہی مکمل ہو پائے گا۔ اس ٹریک پر بسوں کا انتظام اور خودکار نظام بھی وفاقی حکومت ہی فراہم کرے گی۔
بس ریپڈ سسٹم کے اورنج لائن ٹریک کے ساڑھے چار کلومیٹر ٹکڑے کی تعمیر سندھ حکومت نے کی ہے۔ یہ ٹریک اورنگی ٹاون سے بورڈ آفس چورنگی کے راستے گرین لائن سے ملے گا۔ تاہم منصوبے کے ڈیزائن میں تبدیلی، غلط تعمیرات اور دیگر کئی وجوہات کی بناء پر یہ ٹریک گزشتہ کئی سال سے نامکمل چلا آ رہا ہے۔ کراچی کے لیے مربوط بس ریپڈ سسٹم میں گرین اور اورنج لائن ٹریک کے علاوہ ییلو لائنز اور ریڈ لائن ٹریک بھی منصوبے کا حصہ ہیں، تاہم ابھی ان پر کام شروع ہونا باقی ہے۔ ابتدائی طور پر بس ریپڈ سسٹم کے اس منصوبے کا تخمینہ 100 ارب کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے۔
کراچی سرکلر ریلوے، ماضی، حال اور مستقبل ماضی میں سرکلر ریلوے کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ کا موثر ذریعہ تھا جس کے ذریعے روزانہ ہزاروں مسافر اپنی منزل مقصود پر پہنچتے تھے۔ لیکن عدم توجہ کے باعث سرکلر ریلوے 1999 میں بند ہو گئی۔ اس دوران اس کا 43 کلومیٹر طویل ٹریک تجاوزات کی نذر ہو گیا اور کئی مقامات پر تو ریلوے ٹریک کا نام و نشان تک ہی مٹ گیا اور سرکلر ریلوے اسٹیشنز نشے کے عادی افراد کا مسکن اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں میں تبدیل ہو گئے۔ آبادی میں مسلسل اضافے کے نتیجے میں جنم لینے والے ٹریفک مسائل کے حل کے لیے انتظامیہ نے 2006 میں جاپانی حکومت کے ایک ادارے جاپان انٹرنیشل کو آپریشن ایجنسی کے تعاون سے سرکلر ریلوے کی احیاء کے لیے ایک جامع اور مفصل رپورٹ تیار کرائی، جس کا مقصد سرکلر ریلوے کو جدید خطوط پر استوار کرنا تھا۔ اس منصوبے کے تحت 43 کلو میٹر ریلوے لائن پر تجاوزات کا خاتمہ، وہاں آباد افراد کی متبادل جگہوں پر منتقلی اور جدید ترین ٹرین سسٹم متعارف کرانا تھا۔
منصوبے کے تحت سرکلر ریلوے کی ہر ٹرین چھ منٹ بعد 1391 مسافروں کے ساتھ روانہ ہو گی اور روزانہ 6 لاکھ سے زیادہ افراد کو سفر کی سہولت مہیا کرے گی۔ اس منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 2609 ملین امریکی ڈالرز لگایا گیا تھا جس میں وقت گزرنے کے ساتھ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب جاپان کے ساتھ طے کردہ شرائط پوری نہ کیے جانے کے نتیجے میں یہ منصوبہ 13 سال سے التواء کا شکار چلا آ رہا ہے۔ ایک سال قبل سرکلر ریلوے کے مںصوبے کو چینی حکومت کے تعاون سے مکمل کرنے کے لیے اسے پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل کر دیا گیا ہے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ منصوبے کی شرائط کیا ہیں اور اس پر کام کا آغاز کب ہو گا۔ تاہم یہ منصوبہ کراچی کے ٹرانسپورٹ سسٹم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
صوبائی حکومت کیا کہتی ہے؟ صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ اویس قادر شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت کو شہریوں کے مسائل کا مکمل ادراک ہے اور اس کے حل کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی میں وفاقی حکومت کو اصل رکاوٹ قراردیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ریلوے ایک وفاقی ادارہ ہے اور اس نے ہی سرکلر ریلوے شروع کرانی ہے۔ ان کے مطابق صوبائی حکومت کا کام تجاوزات کا خاتمہ کر کے زمین ریلوے کے حوالے کرنا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حکومت سندھ دو ماہ کے اندر کراچی میں 100 نئی بسیں چلانے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے لیے ایک غیر ملکی کمپنی سے معاہدہ طے پا چکا ہے۔ یہ بسیں وفاقی حکومت کے گرین لائن ریپڈ ماس ٹرانزٹ سسٹم سے الگ ہیں جو 11 مختلف روٹس پر چلیں گی۔
مسئلے کا حل، ماہرین کیا کہتے ہیں ماہر سول انجینئیر اور این ای ڈی یونیورسٹی کے شعبہ آرکیٹیکچر اینڈ پلاننگ کے سربراہ ڈاکٹر نعمان احمد کا کہنا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی ایک دشوار کام ہے اور اس کی تکمیل کے لیے صوبائی یا وفاقی حکومت کی کوئی خاص حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ اگر اس سلسلے میں کچھ تجاوزات گرائی بھی جا رہی ہیں تو یہ کام بھی سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر نعمان کے مطابق اس کے مقابلے میں ریپڈ بس ماس ٹرانزٹ کی گرین لائن پر کام اب ایڈوانس مرحلے پر ہے جس کی تکمیل اگلے سال کے شروع تک متوقع ہے۔ لیکن ڈاکٹر نعمان اسے شہریوں کے لیے صرف محدود ریلیف قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر شہر میں ڈیزائن کی گئی تمام 6 ریپڈ ماس ٹرانزٹ لائنز پر کام مکمل کر بھی لیا جائے تو بھی یہ محض 9 فیصد مسافروں کو ہی کو سہولت فراہم کر پائیں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ مستقبل کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شہر کی سڑکوں پر روزانہ اوسطاً 1100 نئی موٹر سائیکلز اور 700 نئی گاڑیاں لائی جا رہی ہیں۔ جس سے سڑکوں پر دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا سائنسی حل تلاش کرنا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق کراچی کے شہریوں کو سفر کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے اس وقت دس ہزار بڑی بسوں کی ضروت ہے۔ لیکن مسقتبل قریب میں یہ کمی پوری ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کیے بغیر کراچی کو دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کے برابر لانے اور لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
0 Comments