Ticker

6/recent/ticker-posts

باران رحمت اور کراچی

ہر مرتبہ کراچی میں باران رحمت انتظامیہ کی مہربانی سے شہریوں کے لیے زحمت بن جاتا ہے ۔ اس کی وجہ سادہ سی ہے کہ صوبائی حکومت اور شہری حکومت دونوں کی توجہ صرف اور صرف کمیشن کی طرف تو ہوتی ہے مگر حقیقی اقدامات کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے ۔ سب کو بخوبی علم ہے کہ کراچی کی کون سی سڑک پر کون کون سے مقامات پر پانی کھڑا ہو جاتا ہے اور جب تک اس پانی کی نکاسی کا انتظام نہ کیا جائے ، یہ پانی کھڑا رہتا ہے ۔ عمومی طور پر پورے شہر میں پلوں کے دونوں طرف پانی کھڑا رہتا ہے ۔ اگر سرکار ان مقامات کی نشاندہی کر کے ان گڑھوں کو پر کر دے تاکہ سطح ہموار ہو جائے اور یہاں پر پانی نہ کھڑا ہو سکے تو شہریوں کی گاڑیاں کم از کم ان پرانے مقامات پر تو نہیں ڈوبیں گی۔

کراچی میں جو نئی سڑکیں بنائی گئی ہیں، ان میں منصوبوں کی حد تک تو بارش کے پانی کی نکاسی کا نظام رکھا گیا ہے اور اس کے لیے رقم بھی مختص کی گئی تھی مگر عملی طور پر برساتی پانی کی نکاسی کا کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے ۔ کراچی یونیورسٹی سے لے کر صفورہ چورنگی تک جو سڑک ایک ارب روپے سے زاید لاگت سے تعمیر کی گئی ہے اس میں سائیڈ میں مین ہول تو ضرور بنائے گئے ہیں مگر ان مین ہولز کو آپس میں کسی لائن سے نہیں جوڑا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ مین ہولز محض پانی جمع کرنے کے گڑھے کا کام ضرور کر سکتے ہیں ۔ اسی طرح یونیورسٹی روڑ پرتقریبا ایک کلومیٹر سڑک کے الیکٹرک نے بلا کسی اجازت کے کھود ڈالی اور اب اسے ایسے ہی مٹی سے بھر کر اس پر تارکول ڈال کر کالا کر دیا گیا ہے۔

 اس میں نہ تو بڑے پتھر ڈالے گئے اور نہ ہی روڑی۔ اب بارش کے بعد یہ حصہ ایک خندق کی صورت پیش کر رہا ہو گا ۔ پورے کراچی میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر دیکھے جا سکتے ہیں جو بارش کے پانی کے ساتھ سیوریج میں شامل ہو کر اس کو بند کرنے کا سبب بنیں گے ۔ ابھی سے اہم سڑکوں پر سیوریج کا پانی بہتا دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیوریج کا نظام پہلے سے ناکارہ ہے اور برسات کا پانی یا تو گھروں میں داخل ہو گا یا پھر سڑکوں پر جمع ہو گا ۔ آخر بلدیہ اور صوبائی حکومت کب تک کراچی کے شہریوں کو سزا دیتے رہیں گے اور اپنا کام نہیں کریں گے ۔

بشکریہ روزنامہ جسارت

Post a Comment

0 Comments