Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی ایک سوالیہ نشان ؟

مصطفیٰ زیدی کا شعر ہے

شہر در شہر پھری میرے گناہوں کی بیاض
بعض نظروں پہ میرا سوز حکیمانہ کھلا

کراچی کو ہم نے پرانے شہری کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ ان ہی گنہگار آنکھوں نے لیاری میں آنکھ کھولی اور شہر قائد کے خوشنما دریچے سے مائی کولاچی کی اس وراثت کو خاک بسر ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ آبادی کے بے تحاشہ پھیلاؤ سے کراچی کے مسائل ہولناک اور انتہائی پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ شہری منصوبہ بندی کے معروف ماہر عارف حسن کئی بار شہرکی تنگ دامانی کا گلہ کرتے رہے، وہ نئے شہر بسانے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں ، سیاسی معیشت کے ماہر سید اکبر زیدی نے کراچی کے اندر کئی بے ترتیب اور خود رو پودوں کی طرح منی شہر بنتے دیکھ کر خبردار کیا تھا کہ صورتحال قابو سے باہر ہو جائے گی ، انفراسٹرکچر پر توجہ دینا ناگزیر ہے۔ ریںاثنا وزیر اعظم ، وزرائے اعلی ٰ، کمشنرز اور میئرز کراچی نے جب جب ضرورت محسوس ہوئی یا موقع ملا تو فراہمی و نکاسی آب، بجلی و گیس کی سہولتوں کے فقدان، کراچی کے بے ہنگم پھیلاؤ ، تجاوزات ، کچی آبادیوں کے قیام ، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ ، قرون وسطی کے زمانے کی بسوں، ٹریفک کے اژدہام، تعلیم، صحت اور تفریحی اقدامات پر اخباری بیانات جاری کیے۔ 

فنڈزاور پیکیجزکی بارش برسانے کا تاثر دیا، وقت کے ساتھ ساتھ ایک ایسے سرکاری کلچر نے جنم لیا جو عوام کا درد آشنا نہ تھا، ہرحکومت اور مقامی حکومت اپنے حساب سے کراچی کی ترقی کے اپنے پیمانے ساتھ لائی، سیکڑوں ماسٹر پلان متعارف کرائے گئے اور شہری ترقی کی کوریوگرافی میں اس بات کا ہمیشہ سے خیال رکھا گیا کہ غریب بستیوں کی حالت مکمل نہ بدلے، بس علاقوں کی گاڑی کی ٹیوننگ ہو، پوائنٹ بدلے، کلچ پلیٹ ، ٹائر ٹیوب اور سیٹ کور کی تبدیلی سے منظرنامہ دیدہ زیب لگے، مطلب لیپا پوتی۔ یوں سڑکیں بنتی ٹوٹتی رہیں، پل بنے اور گر بھی گئے، بلڈرز کو شہری ترقی میں شامل کیا گیا تو اس کا نتیجہ ایک ہولناک کنکریٹ جنگل کی شکل میں سامنے آیا۔ صاف ہوا کے راستے بند کیے، شجر کاری رک گئی ، کراچی کی ڈیموگرافی ہر دور میں متاثر ہوئی ، کوئی چیک نہیں رکھا گیا، کراچی کے تمام انٹری پوائنٹس اس قدر آزاد تھے کہ دنیا کے خطرناک اسمگلر، منشیات کے تاجر ، دہشت گرد، اور جنسی درندے شہر کی محفوظ پناہ گاہوں میں آگئے، ان کا پولیس سے گٹھ جوڑ ہوا۔ رفتہ رفتہ ان طاقتوں نے شہری انتظامیہ ، اشرافیہ ، سیاست دانوں اور ان ٹچ ایبلز سے راہ و رسم پیدا کی، کراچی کو چرس اور بھنگ سے ہیروئن ، کوکین ، ایل ایس ڈی اور ایڈز کی درد ناک دلدل میں اتار دیا، کراچی کی انتظامیہ کی منفی قلب ماہیت ہوئی۔

ریاست وفرد کا رشتہ کمزور ہوا، پرانی افسر شاہی کی قدریں مسمار ہوئیں۔ اب زر پرستی ، بے خوفی، کرپشن اور اقربا پروری کی کوکھ سے نکلے وہ ارباب بست وکشاد آئے، جن کو کراچی کے محنت کش عوام کی بے لوثی سے کچھ واسطہ نہ تھا۔ ان کا مطمع نظر متوسط طبقے کے لیے نئی لگژری رہائشی اسکیموں میں اپنی مرضی کا طبقہ ایجاد کرنا تھا اور وہ جنم لیتا رہا، یہ نو دولتیوں کی وہ کھڑپینچ نسل تھی جس نے پولیس اور نوکر شاہی کی مالیاتی ملی بھگت سے کراچی کو مافیوں کے لیے زرخیز چراگاہ بنا دیا۔ ڈاؤن ٹاؤن کراچی کی گردنوں پر تعمیراتی محل کھڑے کیے گئے، متوسط طبقہ زمین میں دہنستا چلا گیا، غربت ، پسماندگی اور ناخواندگی نے قدم جما لیے، کراچی کا دم گھٹنے لگا۔ حقیقت یہ ہے کہ سول سروس کا جو ابتدائی قافلہ کراچی کے نصیب میں آیا، اس کے لیے بیٹھنے کو مناسب میز و کرسی بھی میسر نہ تھی، جو پہلے وزیراعلیٰ ، میئر ، کمشنر ، ڈپٹی کمشنر ، ریڈیو پاکستان حکام ، فارن سروس، اور عدالتوں کے جج اور سرکاری دفاتر میں ڈائریکٹر ، مینیجر یا سرکاری بیرکوں میں سیکشن افسر تھے۔ ان میں قومی اور ملی جذبے کی فراوانی تھی، اخبارات اور ریفرنس کتابوں، تحقیق اور جدید ریسرچ سے مشاہدہ میں آیا ہے کہ بڑا افسر وہی شمار ہوتا تھا جس میں عوام کے مسائل کے حل کے لیے درد مندی تھی۔

وہ لوگ حریص، لالچی یا پیدائشی کرپٹ نہیں تھے، ان کی موجودگی عوام کو پاکستانیت پر ابھارتی تھی، پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ 50 ء اور 60ء میں حدود نظامت کراچی میں ٹریفک ، ٹرانسپورٹ ، تعلیم صحت کی پالیسیاں نامساعد حالات کی غمازی کرتی تھیں، تنخواہیں برائے نام تھیں اور خواہشات محدود ، کراچی کی صحافت نے مختصر سی تنخواہوں کے ساتھ اخبارات و رسائل کی اشاعتوں کا سلسلہ شروع کیا، ایک سائیکل سوار بھی رات کو لائٹ کے بغیر سائیکل نہیں چلا سکتا تھا، اس کا چالان ہوتا تھا، بھکاریوں کے بھی ٹائم ٹیبل ٹیبل ہوتے تھے، شام ہوتے ہیں گداگروں کی ٹولیاں پرندوں اور محنت کشوں کی طرح گھروں اور اپنے ٹھکانوں کا رخ کرتی تھیں، رشوت، عالی شان گھر بنانے کی دوڑ اور سرکاری ملازمتیں دلانے میں کوئی علی الاعلان اپنا ’’حصہ‘‘ نہیں مانگتا تھا ، بلدیہ کے افسران اور کراچی کے مافیاؤں کے درمیان کوئی مقدس اتحاد نہیں تھا۔

معاشی ماہرین آبادی کے توازن، اعتدال پسندی ، شہری نظام کی جدیدیت، مدنیت کے تہذیبی احساس اور ایک نئے معاشرے کی تعمیر نئے ملک کے تنظیم اور ترقی وآسودگی کے خواب دیکھتے تھے۔ ادب کی دنیا حقیقت افروز تھی، لیکن بالادستوں نے جاگیرداری کے خاتمہ اور لا طبقاتی سسٹم کا فکری عندیہ نہیں تھا، کوئی آئیڈیل سچویشن نہیں تھی ، گلیمر اور میڈیا کی چکا چوند ندارد ، کل کے نامور اسپورٹس مین آج کے سپر اسٹارز کی طرح کروڑ پتی نہ تھے مگر ان میں ٹیم اسپرٹ ، وطن سے محبت اور قومی جھنڈے اور بلیزر کی ساکھ برقرار رکھنے کی ایک امنگ تھی۔ وہ پیسے کے لیے نہیں وطن کا نام سربلند کرنے کے لیے میدان میں اترتے تھے۔ کل کے کراچی اور آج کے شہر قائد میں کوئی قدر مشترک نہیں ، کل کا کراچی مر چکا دفن ہو چکا۔ آج گلیمر کی سرمایہ کاری ہے، کنزیومر ازم اور تشہیرکی دنیا میں بے پناہ پیسہ ہے۔ کراچی پیسے کا گلوبل ولیج ہے، سونے کی کان ہے، کراچی کی پرانی قناعت ، انسان دوستی، مروت اور وضع داری شعلوں کا کفن پہنے ہوئے ہیں ، جو شہر عروس البلاد کہلاتا تھا، آج اس کی ہر دلہن اس ڈر سے میرج ہال میں سہمی رہتی ہے کہ کوئی اس کی مانگ نہ اجاڑ لے۔ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ لاقانونیت کیوں ہے؟

کراچی کا قصورکیا ہے، روشنیوں کے اس شہر کو کس نے اجاڑا، کس کس کے ہاتھ پر لوگ اپنا لہو تلاش کریں ۔ کوئی حکمراں اعتراف جرم کرنے پر تیار نہیں ، پولیس ظلم اور کرپشن کی علامت ہے، کہتے ہیں ایم کیو ایم نے 30 برس کراچی اور حیدرآباد پر حکمرانی کی ، اہل شہر کو ملا کیا ؟ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنی میعاد پوری کر لی، عارضی حکومتیں بھی آئیں ، بے چہرہ اور بے نام نگراں وزرائے اعظم آئے، کراچی سے وعدے کر کے گئے، آمروں نے کثیر نکاتی ایجنڈے پیش کیے۔ لیکن میخائل شولوخوف کے ناول ’’اورڈان بہتا رہا‘‘ And Quiet Flows the Don کے مصداق کوئی بڑی اور پائیدار تبدیلی کراچی کا مقدر نہ بدل سکی۔ سب بالادستوں نے اپنے اپنے مقدر سنوار لیے ۔ شفیع بلوچ 50 سال تک گدھا گاڑی ہی چلاتا رہا، اس کی جھونپڑی اس کی خستہ حالی کا آج بھی ماتم کر رہی ہے۔

آج کراچی میں کھربوں کی تجارت ہو رہی ہے، لاکھوں لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں۔ بے منزل بنت حوا اپنی عصمت بیچ رہی ہے ، شہر انفرا سٹرکچر کو ترس رہا ہے، کچرے سے بدنما کراچی کا چہرہ چھپ گیا ہے، اس کی پہچان مشکل ہو گئی ہے، وہ شہر جس کی سڑکیں روز صاف پانی سے دھوئی جاتی تھی، آج اداس اور اشکبار ہے، منی پاکستان کہلانے والے شہر قائد میں پورے پاکستان کی جملہ قومیتیں بسیرا کر چکی ہیں، ان سب نے مل کر یہ شہر بنایا ہے اب اس کی ترتیب درست کرنا اور پھولوں کو کانٹوں سے الگ کرنا بھی ان ہی کا کام ہے۔ ایک جم غفیر ہے جسے روزگار، رہائش، محفوظ زندگی ، تعلیم ، صحت روشن مستقبل اور آسودگی کی متاع بے بہا چاہیے ۔ آج غریبان شہر یہ کہنے پر کیوں مجبور ہیں کہ

ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے 

نادر شاہ عادل  

بشکریہ ایکسپریس نیوز


Post a Comment

0 Comments