Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی سرکلرریلوے، امکانات وخدشات

چاہے راستے میں جو آئے سب توڑ دیں، پاکستان کے چیف جسٹس، جسٹس گلزار احمد نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی میں ناکامی پر شدید برہمی کا اظہارکرتے ہوئے یہ ریمارکس دیے۔ انھوں نے خبردار کیا کہ ان احکامات پر عمل درآمد نہ ہوا تو سندھ کے وزیراعلی اور ریلوے کی وزارت کے سیکریٹری کو توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کراچی والوں کو اس خبر پر یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ ریلوے کے وزیر شیخ رشید اور سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سرکلر ریلوے کی بحالی کے منصوبہ پرکیوں متفق ہو گئے۔ شیخ رشید نے کراچی اربن ٹرانسپورٹ کمپنی کو صوبے کے حوالے کرنے کا اعلان کیوں کیا ، سپریم کورٹ کی گزشتہ ہفتے کی کارروائی کے بعد یہ معمہ حل ہو گیا۔ اب حکومت سندھ کو سی پیک کی رابطہ کمیٹی سے منصوبہ کی مالیاتی امداد کی منظوری نہیں ہو گی۔

سرکلر ریلوے کی بھی عجب کہانی ہے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں جب کراچی میں نئے صنعتی علاقے تعمیر ہوئے تو سرکلر ریلوے کا منصوبہ شروع ہوا۔ سرکلر ریلوے کراچی کی بندرگاہ کیماڑی سے شروع ہوتی تھی۔ یہ ایک طرف وزیر منشن ، سائٹ، ناظم آباد ، لیاقت آباد، گلشن اقبال اور گلستان جوہر کے گنجان آباد علاقوں سے گزرتی ہوئی ڈرگ روڈ پر مرکزی ریلوے ٹریک سے منسلک ہو جاتی تھی اور پھر ڈرگ کالونی اور لانڈھی کے علاقوں سے گزرتی ہوئی پپری اسٹیشن پر ختم ہوتی تھی۔ پپری سے سرکلر ریلوے دوبارہ لانڈھی، ملیر، ڈرگ کالونی، چنیسر ہالٹ، کینٹ اسٹیشن سے مرکزی سٹی اسٹیشن پر پہنچ جاتی تھی۔ یوں اس زمانے میں شہر کی بڑی آبادیوں کے لیے سفر کا سستا اور محفوظ ذریعہ بن گئی تھی۔

سرکلر ریلوے سے لانڈھی، ملیر، ڈرگ کالونی موجودہ شاہ فیصل کالونی سے کراچی کینٹ اور سٹی اسٹیشن تک سفر آدھے گھنٹہ سے 45 منٹ تک محیط تھا۔ اسی طرح سٹی اسٹیشن سے سائٹ جانے والے 15-20 منٹ میں اپنی منزلوں پر پہنچ جاتے تھے۔ سائٹ سے ملیر اور لانڈھی جانے کا دورانیہ 45 منٹ سے 60 منٹ تک ہوتا تھا۔ صبح کے اوقات میں ہر 15 منٹ بعد سرکلر ریلوے لانڈھی سے سٹی اسٹیشن تک دوڑتی تھی۔ کراچی ایسٹ کے لاکھوں افراد سستے ٹکٹ پر سٹی اسٹیشن پہنچ کر اطراف کے علاقوں میں اپنے اپنے دفاتر میں وقت پر پہنچ جاتے تھے۔ شام 3:00 بجے کے بعد ہزاروں افراد سرکلر ریلوے کے ذریعہ اپنے گھروں کو جاتے تھے اوریہ آپریشن رات 10:00 بجے تک مکمل ہوتا ہے۔ سرکلر ریلوے کے ڈبے صاف ستھرے ہوتے تھے۔ باتھ روم کی سہولت تھی، گرمیوں میں پنکھے چلتے تھے۔ ریلو ے اسٹیشنوں پر ٹھنڈا پانی مل جاتا تھا۔

سرکلر ریلوے کی تباہی کا سلسلہ جنرل ضیاء الحق کے دور سے شروع ہوا جب حکومت نے ریلوے کے بجائے این ایل سی کی سرپرستی کی۔ حکومت کی توجہ کم ہونے سے ریلوے کے محکمہ کی بیوروکریسی اور ٹرانسپورٹ مافیا میں فاصلے سمٹ گئے، پہلے ریل گاڑیوں کے نظام اوقات غیر فطری طور پر تیار ہوئے۔ راستہ میں ریل کے انجن خراب ہونا معمول کا حصہ بن گیا۔ عوام کا سرکلر ریلوے پر اعتماد ختم ہونے لگا، مگر متعلقہ حکام نے کے سی آر کے معیار کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی، کچھ برسوں بعد کے سی آر کا خسارہ بڑھنے پر واویلا شروع ہوا اور سرکلر ریلوے بند ہو گئی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں گورنر عشرت العباد نے کے سی آر کی بحالی کا بیڑا اٹھایا۔ اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے سرکلر ریلوے کا افتتاح کیا۔ 

اس زمانے میں کے سی آر کے تحت ریل گاڑی سٹی اسٹیشن، ڈرگ روڈ اسٹیشن تک چلی جاتی تھی۔ شہر میں کے سی آر کے ٹریک پر لینڈ مافیا کا قبضہ رہا۔ اس دوران کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ عام آدمی کی زندگی مزید اجیرن ہو گئی۔ گزشتہ دو دہائیوں میں جاپان کی حکومت نے کے سی آر کی بحالی میں خصوصی دلچسپی لی۔ جاپان کے ادارہ جائیکا کے ماہرین سرکلر ریلوے کے ٹریک کا معائنہ کرنا چاہتے تھے مگر پولیس اور رینجرز اس ٹیم کو سیکیورٹی کی گارنٹی نہیں دے سکے۔ چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی راہ داری کے منصوبہ پر اتفاق رائے ہوا اورکراچی کے شہریوں کو یہ خوش خبری ملی کہ لاہورکی اورنج ٹرین اور کراچی سرکلر ریلوے سی پیک کے منصوبوں میں شامل ہیں۔

لاہور میں اورنج ٹرین کی تعمیر تیزی سے مکمل ہوئی مگر کراچی والوں کو 2018 میں یہ بری خبر سنائی کہ چین کو کے سی آر کے منصوبہ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ خبریں شایع ہوئیں کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اس منصوبہ کے لیے جاپان سے قرضہ لینا چاہتی ہے، اس تجویز پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔
کراچی والوں کی خوش قسمتی کہ کراچی میں تجاوزات اور غیر قانونی ہورڈنگ کا مقدمہ سپریم کورٹ کے جج اور موجودہ چیف جسٹس گلزار کے سامنے پیش ہوا۔ جسٹس گلزار نے گزشتہ سال احکامات جاری کیے کہ سرکلر ریلوے کے ٹریک پر قائم تجاوزات کے خاتمے کے فوری آپریشن شروع کیا جائے اور 15 دن یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے۔

سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت اور سندھ رینجرز کے حکام کو ہدایات جاری کیں کہ تجاوزات کے خاتمہ میں صوبائی حکومت سے تعاون کیا جائے، ریلوے ٹریک پر تجاوزات کے خاتمے کا عمل وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے مکمل ہوا۔ ریلوے ٹریک پر تھانے اور سرکاری دفاتر تک تعمیر ہو گئے تھے۔ اس ریلوے ٹریک پر جو بستیاں آباد تھیں ان کے مکینوں کے پاس کے ڈی اے کے جاری کردہ الاٹمنٹ لیٹر تھے اور ہر گھر میں بجلی اور گیس کے کنکشن موجود تھے۔ ان تجاوزات کے خاتمے کے بعد سندھ کی حکومت نے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت سرکلر ریلوے چلانے کا انتظام کرے مگر ریلوے کی وزارت کا مؤقف تھا کہ 18ویں ترمیم کے بعد حکومت سندھ کو کے سی آر کو متحرک کرنے کے لیے اپنے فرائض پورا کرنا چاہیے۔ 

اس چپقلش کا نقصان یہ ہوا کہ کے سی آر کے ریلوے ٹریک پر دوبارہ تجاوزات قائم ہونے لگی اور ذرایع ابلاغ میں یہ خبریں شایع ہونے لگیں کہ کے سی آر کا منصوبہ اب فائلوں میں ہمیشہ کے لیے دب جائے گا۔ اس دوران یہ بعض اخبارات نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ ناظم آباد سے نارتھ ناظم آباد جانے والے ریلوے ٹریک کو میٹرو بس کے اوور ہیڈ برج کی تعمیر کے ذریعہ ختم کر دیا جائے اوریوں اب سرکلر ریلوے عملی طور پر چلنا ممکن نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد سرکلر ریلوے کی تکمیل کے امکانات پیدا ہونے کے ساتھ اس منصوبے کی افادیت پر سوال اٹھانے جانے لگے ہیں۔ کچی آبادیوں کے تحفظ کے امین ڈاکٹر نعمان نے انگریزی اخبار میں شایع ہونے والے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ اس منصوبے پر تقریبا 207 بلین روپے کی لاگت آئے گی اس میں سے کچھ رقم چین فراہم کرے گا۔ 

اس طرح ریپٹ ٹرانسپورٹ سسٹم پر 169 بلین روپے خرچ ہونگے۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی کے پانی کے گریٹر منصوبے پر 150 بلین روپے اور ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر پر 39 بلین روپے خرچ ہونگے۔ ڈاکٹر نعمان کا استدلال ہے کہ اتنی بڑی رقم ان منصوبوں کے بجائے دوسرے اہم منصوبوں پر خرچ ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ میں سرکلر ریلوے کے معاملے پر سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل نے بھی اسی قسم کا موقف اختیار کیا، ان کا کہنا تھا کہ سرکلر ریلوے سے کم مسافر مستفید ہوتے تھے۔ ان ماہرین نے اپنی معروضات میں کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی ناگفتہ بہ صورتحال کو نظرانداز کر دیا ، کراچی کی سڑکوں پر آج کل مسافر بسوں کی چھتوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں اور سفر کے لیے چنگ چی رکشہ ہی دستیاب ہے جس کو چین نے مال برداری کے لیے تیار کیا تھا۔

جن افراد کے پاس کچھ رقم جمع ہو جاتی ہے وہ موٹر سائیکل خرید لیتے ہیں، کراچی کی سڑکوں پر میاں بیوی اور چار بچوں کے موٹرسائیکل پر لدنے کے مناظر عام ہیں۔ کراچی میں موٹرسائیکل کے حادثات میں مرنے والوں کی تعداد پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ ٹریفک کا جام ہونا معمول بن گیا ہے، پٹرول اور ڈیزل سے پیدا ہونے والی آلودگی نے شہرکی فضا کو زہر آلود کیا ہوا ہے۔ یہ ساری صورتحال پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے ہے اگر سرکلر ریلوے محض خانہ پری کے لیے چلائی جائے گی ، ٹوٹے ڈبے ہونگے اورگاڑیوں کے اوقات کار غیر حقیقی ہونگے۔ ریلوے کا عملہ گاڑی لیٹ ہونے کے کلچر سے جان نہیں چھڑا پائے گا ، ریل گاڑی اور ریلوے اسٹیشن کا ماحول عوام دوست نہیں ہو گا ، آبادی سے دور قائم ریلوے اسٹیشن سے دفاتر اورگھروں تک جانے کے لیے شٹل سروس مہیا نہیں ہو گی تو یہ منصوبہ ناکام ہو جائے گا۔ یہی وقت ہے کہ سرکلر ریلوے میں توسیع کی جائے ، شہر کے دوردراز علاقوں کو اس کے آپریشن میں شامل کیا جائے تو عوام کو ٹرانسپورٹ کا سستا اور آرام دہ نظام مل جائے گا ، سڑک پر حادثات اور آلودگی میں کمی ہو گی ، یوں اس منصوبے پر خرچ ہونے والی رقم کا ضیاع نہیں ہو گا۔

ڈاکٹر توصیف احمد خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Post a Comment

1 Comments