Ticker

6/recent/ticker-posts

پرانے کراچی کا منظر ایرانیوں کے ہوٹل اور ٹرام سروس

پرانے زمانے کی بات ہے، کراچی ’’ اقبال شہید روڈ ‘‘میں سے دائیں اور بائیں جانب کئی مشہور سڑکیں اور گلیاں نکلتی تھیں جو ساری کی ساری مرکزی صدر بازار کی طرف چلی جاتی تھیں ۔ ایک مشہور سڑک ’’مینس فیلڈ سٹریٹ‘‘ (سیدنا برہان الدین روڈ ) نکل کرصدر کی طرف جاتی تھی ۔اس کی ایک چھوٹی ذیلی سڑک سینٹ پیٹرک کیتھڈرل وغیرہ کی طرف نکلتی ،اس کے دونوں طرف کئی کئی منزلہ اونچی برطانوی طرز کی پتھریلی عمارتیں تھیں ۔ ان میں زیادہ تر عیسائی اور پارسی خاندانوں کے علاوہ بوہری اور امیر میمن بھی رہا کرتے تھے۔ اس وقت صدر کی تمام بڑی سڑکیں صبح صبح دھلا کرتی تھیں۔ پانی کے ٹینکر آتے اور سڑک پر پانی گراتے، خاکروب سڑک کو جھاڑو سے اچھی طرح چمکاتے، یہ سارا کام کاروبار زندگی شروع ہونے سے قبل ہی پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا تھا ۔ ویسے بھی جہاں مسلسل بگھیاں اور تانگے چلتے ہوں وہاں اس قسم کی صفائی ضروری ہو جاتی ہے ۔ 

اس سڑک کے فٹ پاتھ پر صبح سویرے بڑے خوب صورت مناظر دیکھنے کو ملتے تھے۔ پارسی خواتین اپنے فٹ پاتھ پر رنگ برنگے پاؤڈر کے ساتھ پھولوں کے ٹھپے لگا کر بڑے ہی دیدہ زیب ڈیزائن بنایا کرتی تھیں ۔ کچھ دیر تک تو یہ اپنی آب و تاب سے قائم رہتے اور لوگ بھی اس سے قدم بچا کر چلتے، تاہم دن چڑھے جب عوام کا کثرت سے آنا جانا شروع ہو جاتا، تو محنت سے بنائے گئے یہ پھول بھی پیروں تلے رگڑے اور روندے جانے کے باعث ختم ہو کر مٹی میں رُل جاتے تھے ۔ اسی سڑک پر فرنیچر کی کچھ دکانیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ ایک بہت بڑی دکان کراچی کے اکلوتے سکھ خاندان روندر پال سنگھ کی تھی جو بہت ہی اعلیٰ درجے کا فرنیچر تیار کیا کرتے تھے ۔ پرانے وقتوں میں کراچی میں زیادہ تر ریسٹورنٹ اور چائے خانے ایرانی باشندے چلاتے تھے ۔ یہ سرخ و سپید، لمبے تڑنگے اور بھاری بھر کم لوگ مرکزی دروازے کے پاس ہی بنے ہوئے کاؤنٹر پر بیٹھے رہتے تھے۔ 

جیسے ہی کوئی شخص چائے یا کھانے سے فارغ ہو کر واپسی کے لیے دروازے کی طرف بڑھتا تو پیچھے سے ویٹر بلند آواز میں اس کے بل کی رقم پکارتا تھا ۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ بیک وقت کئی لوگ کاؤنٹر پر جا پہنچتے تو بیرا بِل کے ساتھ اس کا شناختی نشان بھی بیان کرتا جاتا تھا ،جیسا کہ نیلی ٹوپی والے بھائی سے آٹھ آنے یا لمبے بھائی سے ایک روپیہ ۔ حیرت اس بات کی تھی کہ بیروں کو ہر کسی کے بل کی رقم زبانی یاد ہوتی تھی ۔ مینس فیلڈ سٹریٹ پر دو ریسٹورنٹ بھی تھے جن میں ایک پر بڑے ہی لذیذ کچے قیمے والے دھاگا کباب ہوتے تھے ۔ دو آنے کا بڑا سا کباب آجاتا تھا جو سیخ سمیت ہی گاہک کو تھما دیا جاتا تھا ۔ اس کی بے چین کر دینے والی خوشبو تو اپنی جگہ تھی ہی لیکن یہ ساخت میں بھی اتنا نفیس ہوتا تھا کہ ہاتھ لگتے ہی دھاگا سیخ پر لپٹا رہ جاتا اور کباب انگلیوں میں آجاتا اور منہ میں رکھتے ہی گھلنے لگتا۔

گھر میں پسے ہو ئے صاف ستھرے مصالحے ہوتے جن کا ذائقہ منفرد تھا ۔ لذت کام و دہن کی خاطر یہاں اور بھی بڑا کچھ موجود رہتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی دو دکانیں چھوڑ کر ایک پنجابی پہلوان کی دودھ دہی کی دکان تھی جہاں گرم الائچی والا دودھ ملتا تھا ، میٹھے دہی کی ایک پلیٹ بھی مل جاتی تھی، سب سے بڑھ کر یہ کہ اس دہی کو وہ تانبے کی بنی ہوئی چھوٹی سی مٹکی میں بلو کر کوئی فٹ بھر لمبا گاڑھی، میٹھی اور ٹھنڈی لسی کا گلاس گاہک کو صرف آٹھ آنے میں تھما دیتا تھا ، یہ لسی اتنی ثقیل ہوتی تھی کہ پینے والا مسلسل کئی ڈکار لینے کے باوجود بھی چین نہ پاتا تھا۔ دکان میں کچھ بنچ لگوا کر سامنے میز رکھ دیا جاتا جہاں بیٹھ کر لوگ مزے لے لے کر دودھ اور لسی پیتے یا دہی کھاتے تھے۔ صدر میں ایک معمولی سا ریسٹورنٹ ہوا کرتا تھا ، جو محض اپنے خاص محل وقوع کی وجہ سے زبان زد عام ہو گیا تھا ورنہ اس میں کوئی ایسی بات نہ تھی، سابق صدر ایوب خاں کے دور میں یہاں ایک ننھا منا سا پارک بنایا گیا جسے خوب صورت پھولوں سے بھر دیا گیا تھا، ایک چھوٹی سی جھیل بھی بنائی گئی جس کی سطح پر کنول کے بڑے بڑے پتے اور گلابی پھول تیرا کرتے تھے ۔ 

کچھ دنوں بعد یہاں کی رونق کو مزید نکھارنے کے لیے خوب صورت بطخوں کے دو جوڑے بھی لا کر جھیل میں چھوڑ دیئے گئے۔ کراچی والوں کو ایسے حسین مناظر کم کم ہی دیکھنے کو ملتے تھے، اس لیے وہاں اکثر بے فکرے لوگوں کا جھمگٹا لگا رہتا تھا ۔ اب یہ مناظر کہیں کھو گئے ہیں۔ ہوٹلوں کی چائے بڑی شاندار ہوا کرتی تھی۔ دو آنے کا چھوٹا سا کپ ملتا تھا جس میں فرمائش کر کے ملائی ڈلوائی جاتی تھی ۔ ایسی درخواست آنے پر بیرا بآواز بلند چائے والے کو حکم صادر کرتا تھا کہ’’ ایک کپ چائے ملائی مار کے‘‘۔ چائے والا سامنے پڑے ہوئے سماوار سے ابلتی ہوئی چائے کا کپ بھر کے قریب ہی رکھے ہوئے برتن میں سے کڑھے ہوئے دودھ پر سے ملائی کی آدھا انچ موٹی ایک پرت خاص انداز سے کاٹ کر چائے کے کپ میں پھینک دیتا جو فوراً ہی تیرتی ہوئی سطح چائے پر آ جاتی اور برفانی تودوں کی طرح ہلکورے لینے لگتی۔ 

منتظر بیرا فوراً ہی کپ اٹھا کر لے آتا اور گاہک کی میز پر اتنے زور سے پٹختا کہ دور بیٹھے ہوئے لوگ بھی چونک جاتے تھے۔ تب کراچی میں آج کل کی طرح بے تحاشا بریانی کا چلن عام نہیں ہوا تھا، اس لیے ریسٹورنٹ میں بھی یخنی والا پلائو ہی بنتا تھا۔ ایک وقت کا سادہ سا کھانا ،جس میں چھو ٹی سی قورمے کی پلیٹ، دو روٹیاں اور تھوڑی سی چٹنی ہوتی تھی آٹھ آنے میں مل جاتا تھا۔ ہاں اگر اس میں ایک پلیٹ پلاؤ بھی شامل کر لیا جاتا تو بات ایک روپے تک جا پہنچتی تھی ۔ سادہ دال روٹی ہر ایک کی پہنچ میں تھی ، جو چارآنے میں تھما دی جاتی ۔ بیرے گاہکوں کے سر پر کھڑے رہتے تھے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد کسی نہ کسی بہانے میز کے چکر لگاتے رہتے تاکہ اس کی آنیاں جانیاں دیکھ کر گاہک کو اندازہ ہو جائے کہ اب اس کایہاں زیادہ ٹھہرنا پسند نہیں کیا جا رہا ہے اور یہ کہ وہ جلد ہی اس کی رخصتی چاہتے ہیں۔ یہ سب کچھ محسوس کر کے وہ کھانا کھانے کی رفتار بڑھا دیتا اور جلد از جلد فارغ ہو کر کسی دوسرے کے لیے نشست خالی کر دیتا، جو قریب ہی کہیں کھڑا اِسی موقع کے انتظار میں ہوتا تھا۔

اس سے لگ کر ہی ایک مشہور پان والے کی دکان تھی جہاں سادہ پان دو پیسے کا اور اچھا خاصا پلا پلایا میٹھا پان ایک آنے میں مل جاتا تھا۔ اس میٹھے پان کی تیاری گاہک کی نظروں کے سامنے ہوتی اور پنواڑی کافی دیر تک نہ جانے کیا الم غلم اس میں بھرتا جاتا تھا۔ تاہم اس کے نتیجے میں جو پان وجود میں آتا تھا اس کی خوشبو سے بڑی دیر تک دہن مہکتا رہتا اور ہونٹ گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح سرخ رہتے ۔ اس کے پاس سگریٹ بھی موجود تھے۔ مینس فیلڈ سٹریٹ آگے چل کر صدر کے مرکزی علاقے میں ’’ کلارک روڈ ـ‘‘ کو چھوتی تھی جسے بعد ازاں ’’شاہراہ ٔ عراق‘‘ کہا جانے لگا ۔غالباً 1954 میں عراق کا نوجوان بادشاہ فیصل کراچی آیا تھا۔ وہ سرکاری بگھی پر بیٹھا بڑا پیارا لگتا تھا ۔ پھر وہ واپس عراق چلا گیا، واپسی کے بمشکل پانچ برس بعد اسے عراق میں خاندان کے تمام افراد کے ہمراہ قتل کر دیا گیا تھا ۔

پاکستان میں یہ خبر انتہائی صدمے کے عالم میں سنی گئی۔ غالباً انہی دنوں کلارک سٹریٹ کا نام بدل کر شاہراۂ عراق رکھا گیا ہو گا ۔ انورائٹی روڈ پر اسی نیپئر سٹریٹ کے متوازی چلتی ہوئی اگلی سڑک بہت اہمیت کی حامل تھی۔ اس کا نام ’’ فرئیر اسٹریٹ‘‘ ( ڈاکٹر دائود پوتا روڈ ) ہوا کرتا تھا۔ چونکہ اس پر ’’ٹرامیں‘‘ چلتی تھی۔ یار لوگ اسے ٹرام پٹہ کہہ دیا کرتے تھے ۔ یہ کراچی والوں کا ایک خاص اندازہے کہ کسی بھی جگہ کو دیکھ کر جو بھی سب سے پہلے من میں آئے وہ ہی اس کا مستقل نام پڑ جاتا تھا ۔ کینٹ اسٹیشن سے ایک مقامی ریل گاڑی بھی چلا کرتی تھی جو لوکل ٹرین کہلاتی تھی ۔ تقریباً ہر دس پندرہ منٹ کے بعد ایک ٹوٹ پھوٹ کا شکار، تھکی ہاری اور گرد سے اٹی ہوئی گاڑی آتی تھی، جس میں چھ سات بوگیاں ہوتی تھیں ۔ یہ ڈرگ روڈ سے سٹی اسٹیشن کی طرف چلی جاتی تھی۔ پھر وہاں کچھ دیر قیام کر کے واپسی کا سفراختیار کر لیتی تھی۔ یہ سلسلہ صبح سویرے شروع ہو کر شام ڈھلے تک چلتا رہتا تھا ۔ اب یہ منظر کہاں!

محمد سعید جاوید

بشکریہ دنیا نیوز


Post a Comment

0 Comments