Ticker

6/recent/ticker-posts

’’ لاوارث‘‘ کراچی

مائیں اکثر اپنے بچوں، کی نظر اتارتی ہیں۔ مگر یہ سب ان بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کے وارث ہوتے ہیں۔ یہ تو ایک ’ لاوارث‘ ہے نام اپنا ’ کراچی ‘ بتاتا ہے ۔ ہر بار ڈوبتا ہے اور پھر ابھرتا ہے اور اپنے وارث کو تلاش کرنے نکل پڑتا ہے۔ اس بار ایک قیامت سی گزر گئی ، اس پر۔ ہر شخص کی یہاں اپنی کہانی ہے۔ کیا سرجانی اور کیا ڈیفنس، کیا کورنگی اور کیا اورنگی۔ پتا نہیں کس کس کی برسوں کی جمع پونجی ان بارشوں میں بہہ گئی ۔ پانی اترا تو سڑکیں بھی بہہ گئیں۔ بجلی کے تار کھمبوں سے زمین پر آگئے نہ جانے کتنوں کو کھا گئے ، گلیوں میں کھیلتے نہ جانے کتنے بچے نالوں میں ڈوب کر کھو گئے ۔ کوئی ہے جو ان سے حساب لے، اس سب کا۔ مگر میں تو لاوارث ہوں میری پروا کسے ہو گی۔ سنا ہے مجھے آفت زدہ قرار دے دیا گیا۔ سنا ہے وزیر اعظم بھی کراچی آرہے ہیں، گھنٹوں کے لیے یا دنوں کے لیے پتا نہیں، عین ممکن ہے کہ یہ سب لوگ اس لاوارث کی شناخت کریں اور پھر کچھ کریں۔ اب پتا نہیں یہ بڑے بڑے لوگ اس بارے میں کیا سوچیں گے ۔ اب تو عمارت کی صرف مرمت ہی ہو سکتی ہے۔

سب کچھ تو تباہ کر دیا ہے کیا سندھ حکومت، کیا شہری اور کیا وفاقی حکومت ۔میں تو DHA اور کنٹونمنٹ بورڈ کے علاقے دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہوں، مگر قدرت کا کرم دیکھیں ان بارشوں نے سب کو بے نقاب کر دیا ہے۔ کیا بلاول اور کیا مراد علی شاہ، کیا وسیم اختر اور کیا ماضی کہ حکمران اور اس شہر کے قائد سب نے خوب استعمال کیا اس شہر کا ۔ جمہوریت بے معنی بنا دی ہے ان لوگوں نے۔سیاست میں بھی گھس بیٹھئے آگئے ہیں۔ سب کی نظریں بس اس سونے کے انڈے دینے والی مرغی پر ہیں۔ کچھ عارضی حل تلاش کیا جائے گا ، کچھ دانا ڈالا جائے گا پانی پلایا جائے گا افسران کی باچھیں کھلیں گی نیا پیکیج دیکھ کر۔ ان راشی افسران کے کھاتے کھاتے پیٹ بڑے ہو گئے ہیں مگر بھرے نہیں ہوس کا وہی عالم۔ چلو شاید کچھ نالے صاف ہو جائیں، کچھ سڑکیں پھر بن جائیں۔ اس شہر کی تو پچھلے 73 سال سے صرف ، کراچی کٹنگ، اور چائنا کٹنگ ہو رہی ہے۔ ایسے ہی تو نہیں ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، لیاقت آباد، لیاری ، ملیر، اورنگی ، کورنگی غرض یہ کہ نئے پرانے تما م علاقے تباہ ہوئے ۔ اسی لیے اس شہر کو ’ لاوارث‘ رکھا کہ وارث ہوتا تو خیال بھی رکھا جاتا ؟

یہ صرف اسی کے ساتھ ہو سکتا تھا کہ اچھے خاصے شہر کو تباہ کر دو، یہاں بسیں بھی تھیں اور ٹرام بھی ، سر کلر ریلوے بھی تھی اور معیاری ٹیکسیاں بھی ۔ اس شہر نے تو سب کوووٹ دیا کیا پی پی پی، کیا جماعت اسلامی، کیا ایم کیو ایم اور اب پی ٹی آئی۔ مگر کراچی وفاقی دارلحکومت سے سندھ کا دارالحکومت کیا بنا مرکز اور صوبہ کی توجہ ہی ختم ہو گئی ۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ آپ کراچی پہ اتنا کیوں بولتے، لکھتے ہیں اور بھی تو شہر ہیں؟ بات بہت حد تک درست ہے مگر کیا کوئی دوسرا شہر ہے جو پورا ملک چلاتا ہو۔ کوئی اور ’ منی پاکستان ، یا معاشی حب ہے، کوئی اور شہر وفاق کو 70 فیصد ریونیو دیتا ہے۔ یہ بس میرے جذبات تھے کوئی شاعری نہیں، تھا کبھی یہ شہر روشنیوں کا شہر، اچانک اندھیروں میں گم ہو گیا، کچھ معلوم سے نامعلوم سے لوگ آ گئے ہم سب کو کھا گئے۔

اب یہ لوگوں کی محبت کہ انہیں یہ جذبات حقیقت سے قریب تر لگے۔ میں تو سندھ کے ہر شہر کا نوحہ لکھنے کو تیار ہوں۔ حیدرآباد تو میرے دل کے قریب ہے۔ اس کے گلی کوچوں میں کھیل کود کر جوان ہوا۔ کیا سندھ میں شاہ لطیف کی دھرتی سے کوئی حکمران کہہ سکتا ہے کہ میں نے یہاں تعلیم کو فروغ دیا، عام آدمی کو صحت کی مناسب سہولتیں پہنچائیں، پینے کا صاف پانی دیا۔ اچھی ٹرانسپورٹ دی، مضبوط بلدیاتی نظام دیا۔ چلیں ماضی کا کیا رونا روئیں آپ نے تو میرٹ کا کلچر ہی ختم کر کے رکھ دیا۔ آئین پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے ’وارث‘ بنیں اور ایک مضبوط اور مربوط بلدیاتی نظام کی بنیاد رکھیں۔ یہ چند تجاویز ہیں، اگر مناسب سمجھیں تو وفاق اور سندھ مل کر حل نکال سکتےہیں۔ کراچی کی آبادی کا درست تعین ضروری ہے۔ اس بات پر سب متفق ہیں کہ یہ شہر تین کروڑ سے زائد لوگوں کا شہر ہے۔ آبادی کے تعین کے بعد یہاں کی درست حلقہ بندیاں ہوں اور اسی تناسب سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے ۔ 

کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کو مکمل بااختیار، مالی سیاسی اور انتظامی طور پر تسلیم کیا جائے۔ کراچی کی اپنی مقامی پولیس ہو جیسا کہ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ جنگی بنیادوں پر کراچی کو کم ازکم 10 ہزار بڑی سائز کی بسیں دی جائیں جن کے اپنے ڈپو ہوں۔ کراچی سر کلر ریلوے کو 6 ماہ کے اندر اندر بحال کیا جائے ماضی کے ماسٹر پلان کو سامنے رکھتے ہوئے فوری طور پر نیا ماسٹر پلان بنایا جائے اور شہر کو اسی کے مطابق توسیع دی جائے۔ کراچی کو شناخت مل گئی توشہر بھی بن جائے گا۔ آخر جب سب سر جوڑ کر بیٹھے تو شہر سے 85 فیصد دہشت گردی ختم ہوئی۔ اگر 92 ،95 ، 1998 میں سیاسی مصلحتیں اور سیاسی انجینئرنگ آڑے نہ آتی تو شہر سے دہشت گردی 40 سال پہلے ہی ختم ہو چکی ہوتی۔ چھوڑ دیں وہ کام جو آپ کو نہیں آتا اور کریں وہ کام جو آپ کو اچھی طرح آتا ہے۔ یہی درخواست سندھ حکومت اور پی پی پی کی قیادت سے ہے 31 سال سے رینجرز اس شہر میں ہے، آپ ایک اچھی پولیس نہ دے سکے۔ اب یہ فیصلہ فیصلہ سازوں نے کرنا ہے کہ وہ شعور سے کام لیں گے یا صرف شور پر گزارا کریں گے۔ اگر اس لاوارث کی شناخت ہو گئی ہو تو کچھ بات آگے بڑھائیں ورنہ اس کو لاوارث ہی دفن کر دیں کیوں انتظار کرتے ہیں کسی ایک لمحہ کا ، کسی ایک سانحہ کا، حادثہ ہو جائے یا بقول پروفیسر عنایت مرحوم،

حادثہ سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

مظہر عباس

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

Post a Comment

0 Comments