روزنامہ ایکسپریس کراچی کی رپورٹ کے مطابق ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی تباہ حال سڑکوں کے باعث لوگ ان سڑکوں پر سفر کے باعث کمر اور مہروں کے دردوں میں مبتلا ہو گئے ہیں اور گزشتہ 6 ماہ کے دوران موٹرسائیکل سواروں کی بڑی تعداد اس مرض کا شکار ہو رہی ہے۔ شہر کی خراب سڑکوں کے باعث سفر کرنے والے ہر عمر کے افراد ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر اڑنے والی دھول مٹی ان کے لیے عذاب بنی ہوئی ہے جب کہ تقریباً ہر علاقے میں سیوریج سے زیر آب سڑکیں اور اندرونی راستے آمدورفت میں مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ماہرین امراض درد کا کہنا ہے کہ پہلے خواتین جوڑوں کے درد کا زیادہ شکار ہوتی تھیں لیکن اب مرد خصوصاً نوجوانوں کی بڑی تعداد جسمانی تکالیف کے باعث اسپتالوں کا رخ کر رہی ہے کیونکہ شہر کی گڑھوں سے بھری سڑکیں شہریوں کی صحت تباہ کرنے کا سبب بن گئی ہیں۔
سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے سڑکوں کی تعمیر کے لیے ایک فارمولا اختیار کیا تھا اور سڑکوں کی تعمیر سے قبل اس انتظام کو یقینی بنانا تھا کہ سڑکوں کے درمیان بارش یا سیوریج کا پانی جمع نہ ہو تاکہ سڑکیں محفوظ رہیں کیونکہ تارکول سے بننے والی سڑکوں کا دشمن بارش یا سیوریج کا پانی ہوتا ہے۔ اس لیے سڑکوں کو پانی سے بچانے کے لیے سڑکوں کے درمیان موجود گٹر لائنوں کو سڑکوں کے ایک طرف منتقل کیا گیا تاکہ پانی سڑکوں پر نہ ٹھہرے اور نشیب میں بہہ کر گٹروں میں چلا جائے۔ بعض علاقوں میں سیوریج کی لائنوں سے الگ برساتی لائنیں بھی موجود تھیں اور بارشوں میں برساتی پانی قریبی ندیوں میں چلا جاتا تھا۔ کراچی شہر میں سیوریج سسٹم تقریباً تباہ ہو چکا ہے جو عشروں پرانا تھا۔ نکاسی آب کے لیے جو سیوریج لائنیں ڈالی گئیں وہ ناقص ہونے کے باعث ٹوٹ گئیں اور پانی نکاسی نہ ہونے کی وجہ سے گٹروں کا ابلنا معمول بنا ہوا ہے جس سے سڑکیں زیر آب آجاتی ہیں اور گھنٹوں یا دنوں تک پانی سڑکوں پر کھڑا رہنے سے سڑکوں میں گڑھے پڑ جاتے ہیں جو بڑھتے اور گہرے ہوتے جاتے ہیں اور متاثرہ سڑکیں پیدل چلنے کے بھی قابل نہیں رہتیں۔ شہر میں جو نئی لائنیں ڈالی جاتی ہیں۔
ان کو آپس میں ملاتے ہوئے لیول کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا اور پائپ بھی درست طور نہیں ملائے جاتے اور یہ سب کام ٹھیکیدار کے مزدوروں پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور لائنیں ڈالتے وقت متعلقہ انجینئر موجود نہیں ہوتے اور ان کی غیر موجودگی میں مزدور الٹے سیدھے پائپ ڈال کر مٹی بھر دیتے ہیں۔ پائپوں کا لیول دیکھنے والا کوئی بھی موقع پر موجود نہیں ہوتا ذمے داروں کو صرف کمیشن مطلوب ہوتا ہے۔ شہر میں آئے دن گٹر لائنیں بند ہوجانے سے گٹر ابل جاتے ہیں اور سڑکوں پر پانی جمع ہو جاتا ہے جس کیطرف واٹر بورڈ کے اعلیٰ افسران کی توجہ مبذول کرائی جاتی ہے تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ سیوریج لائن ایک گھر کے لیے ڈالی گئی تھی مگر جب 120 یا دو سو گز کے پلاٹوں میں تیسری چوتھی منزلیں بنا کر دس افراد کے لیے بنائی گئی سیوریج لائن میں سو افراد کے استعمال کا پانی آئے گا تو گٹر لائن چوک کیوں نہیں ہو گی؟ ان کا یہ استدلال درست ہے مگر جب اضافی پورشن اور ایک گھر کی جگہ دو کمروں کے چھے سے آٹھ فلیٹ بنائے جا رہے تھے تو اس وقت واٹر بورڈ کیوں سویا رہا اور اضافی گھر بنائے جانے پر ایس بی سی اے کے سرٹیفکیٹ پر اعتراضات کیوں نہیں کیے گئے تھے۔
واٹر بورڈ کو اپنی سیوریج لائنوں کی صورت حال کا پتا تھا تو ایس بی سی اے نے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ کراچی کی سڑکوں کی تباہی حالیہ بارشوں سے واقعی بڑھی ہے مگر سڑکوں کی حالت تو بارشوں سے قبل بھی نہایت خراب تھی جو سیوریج لائنوں کے چوک ہونے سے مزید تباہی کا شکار ہوئیں اس لیے شہر کی سڑکوں کی تباہی میں واٹر بورڈ کا بھی کردار ہے۔ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ شہر کے جن علاقوں میں نئی پائپ لائن ڈالتا ہے یا پرانے تبدیل کرتا ہے اس کی اجازت متعلقہ بلدیاتی ادارے سے لیتا ہے اور سڑکوں کی مرمت کے لیے ایڈوانس رقم بھی جمع کراتا ہے مگر بلدیہ عظمیٰ اور ڈی ایم سیز سیوریج لائنوں کا کام مکمل ہونے پر سڑکوں کی مرمت سالوں نہیں کراتے اور ملنے والی رقم سڑکوں کے بجائے دیگر معاملات میں خرچ کر دی جاتی ہے۔ حالیہ بارشوں کے بعد اندرون شہر ہزاروں گٹر کھلے پڑے ہیں۔ گٹروں کے غیر معیاری سیمنٹ کے ڈھکن ٹوٹ چکے ہیں جس سے روزانہ ان گٹروں میں گر کر لوگ زخمی ہو رہے ہیں جن پر کہیں کہیں لوگ خود پرانا فرنیچر، بانس یا درختوں کی ٹہنیاں توڑ کر کھلے گٹر کی نشاندہی کے لیے رکھ دیتے ہیں مگر متعلقہ ادارے گٹروں پر ڈھکن نہیں لگا رہے۔
کراچی میں اپنے علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر و مرمت بلدیہ عظمیٰ اور ڈی ایم سیز کی ذمے داری ہے جن کی سربراہی دو تین سالوں سے سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کی ذمے داری ہے۔ سڑکوں کی تعمیر و مرمت میں کرپشن سب سے زیادہ اور اندھی کمائی کا ذریعہ ہے جن کی نگرانی نہیں کی جاتی اور کام مکمل ہونے کے بعد غلط رپورٹیں بنا کر ٹھیکیداروں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے اور باہمی ملی بھگت سے ناقص تعمیرات کی جاتی ہیں جس کی تازہ مثال جہانگیر روڈ کی حالیہ تعمیر ہے جو ایک ہفتے بعد ہی دوبارہ تباہ ہو گئی تھی۔ اہم سڑکوں پر موجود گڑھوں کی فوری مرمت نہیں کرائی جا رہی یا وہاں ملبہ ڈال کر پختہ نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے وہاں ٹریفک جام معمول ہے کیونکہ گاڑیوں کو وہاں آہستگی سے گزرنا پڑتا ہے جس سے خراب سڑک اور گڑھے شہریوں کو کمر درد اور مہروں کے درد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کی گاڑیاں بھی خراب ہو رہی ہیں جس سے مکینکوں اور ڈاکٹروں کے پاس رش بڑھا ہوا ہے مگر نااہل بلدیاتی ادارے فوری طور سڑکیں مرمت نہیں کرا رہے اور یہ گڑھے دن بہ دن وسیع ہوتے جا رہے ہیں مگر کسی کو پرواہ نہیں۔
0 Comments