Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی کی گندگی اور ہم

ماحولیات کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے مطابق پاکستان میں 55 ارب پلاسٹک کے تھیلے سالانہ استعمال کیے جاتے ہیں اور اس استعمال میں ہر سال 15 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے کُل کچرے کا 65 فیصد پلاسٹک کے بیگ، بوتلوں اور پلاسٹک سے بنی دیگر اشیا پر مبنی ہوتا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق ہر سال پاکستان میں 33 لاکھ ٹن پلاسٹک کا کچرا بنتا ہے اور اس میں سے زیادہ تر لینڈ فلز یا جگہ جگہ زمین اور پانی میں پھیلا ہوتا ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اگر اس 33 لاکھ پلاسٹک کچرے کا انبار لگایا جائے تو اس کی اونچائی 16 ہزار 500 میٹر بنے گی۔ یعنی اس پلاسٹک کے کچرے کے پہاڑ کی اونچائی دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سے تقریباً دگنی ہو گی۔ پچھلی دو دہائیوں سے اسلام آباد میں مقیم ہوں اور اس سے قبل اتنا ہی عرصہ کراچی میں گزارا۔ وہ کراچی جہاں بارش کے مزے لے سکتے تھے اور یہ خوف نہیں ہوتا تھا کہ سڑکیں زیر آب آ جائیں گی، بارش میں لمبی ڈرائیو پر نکل جاتے۔ ہاں چند بوندوں کے ساتھ ہی بجلی اس وقت بھی چلی جاتی تھی۔

ان دو دہائیوں میں کراچی آنا جانا لگا رہا ہے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہو۔ آج کل میں دوبارہ کراچی میں ہوں اور اس بار کئی علاقوں میں جانے کا موقع ملا ہے۔ فٹ بال کے جوتے خریدنے تھے تو لائٹ ہاؤس گیا، محرم میں انچولی اور ناظم آباد گیا، کھانے پینے اور سیرو تفریح کے لیے برنس روڈ سے لے کر ڈیفنس کلفٹن اور سی ویو گیا۔ لائٹ ہاؤس گیا تو کچھ دیر میں گندگی سے بچ بچ کر چلتا رہا لیکن کچھ دیر بعد احساس ہوا ہے کہ جہاں میں بچ کر چل رہا ہوں وہ بھی گندگی ہے اور سڑک کہیں یا جو بھی وہ تو مجھے اب تک نظر ہی نہیں آئی۔ ساتھ ہی ایک نالہ جس کے بارے میں مجھے کہنا چاہیے تھا کہ بہتا ہوا نالہ لیکن ایسا میں کہوں تو غلط بیانی ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اس میں پانی نظر آئے گا تو میں یہ کہہ سکوں گا کہ پانی بہہ رہا تھا یا نہیں۔ پانی کے اوپر پلاسٹک کے شاپرز کی ایک تہہ تھی۔ اس روشنیوں کے شہر کے جس علاقے میں بھی گیا وہاں شاپرز اور گندگی ہی نظر آئی۔ جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر، تھوڑی تیز ہوا چلے تو درختوں کے پتے نہیں بلکہ پلاسٹکس اڑتے دکھائے دیتے ہیں۔

ہم سب اگر ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ یہ پلاسٹک جو ہم جگہ جگہ پھینک دیتے ہیں یہ ہمارے اور ہمارے ماحول کے لیے کتنا مضر ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی پلاسٹک کے کچرے اور دیگر کچرے کا زیرِ زمین پانی میں ملنے سے ایک بڑا خطرہ ہمیں لاحق ہے۔ کچرے کے ڈھیر تو ہم سب نے دیکھے ہی ہوئے ہیں اور اب ذرا سوچیے کہ یہ کچرا زیر زمین پانی میں مل جائے تو کیا ہو گا۔ ہم جو پانی استعمال کرتے ہیں، اس میں کچرے کے چھوٹے چھوٹے ذرات ملے ہوں گے۔  حکومت پاکستان نے حالیہ عرصے میں پلاسٹک کی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ ان اقدامات کے ساتھ ساتھ نئے طریقوں کے استعمال اور سرمایہ کاری کی مزید ضرورت ہے۔ عالمی رپورٹس کے مطابق جنوبی ایشیا کے ممالک میں پاکستان میں پلاسٹک کے کچرے کو صحیح طور پر ٹھکانے نہ لگانے کا مسئلہ سب سے زیادہ ہے۔

اگرچہ پاکستان نے بھی دنیا کے کئی ممالک کی طرح پلاسٹک بیگ کے استعمال پر پابندی عائد کی اور اس پر عمل درآمد کچھ عرصے کے لیے سختی سے کیا بھی گیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد حالات جوں کے توں ہو گئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 2020 میں 39 لاکھ ٹن پلاسٹک کا کچرا تھا جبکہ اس میں 70 فیصد یعنی 26 لاکھ ٹن پلاسٹک کے کچرے کو صحیح طور پر ضائع نہیں کیا گیا۔ ہمیں بھی افریقی ملک روانڈا کی طرز پر پلاسٹک کے استعمال کے خلاف مہم چلانی ہوگی۔ روانڈا نے 2008 میں پلاسٹک بیگز پر پابندی عائد کی تھی اور کامیابی سے اس پر عملدرآمد کروایا ہے۔ روانڈا میں پلاسٹک بیگ کے استعمال پر جیل ہو سکتی ہے اور جو غیر ملکی بھی روانڈا پہنچتا ہے تو امیگریشن ہی پر اسے تمام پلاسٹک بیگز کو چھوڑنا پڑتا ہے۔  پلاسٹک آلودگی کے حوالے سے پاکستان میں سیاسی سنجیدگی میں ابھی وقت لگے گا لیکن کیا اس حوالے سے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے پاس اتنا وقت ہے کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے۔

اس سے پہلے کہ یہ مسئلہ مزید سنجیدہ ہو ملک بھر میں عوام کو آگاہی دینے کی فی الفور ضرورت ہے، ایک مربوط پالیسی درکار ہے جس پر سختی سے عملدرامد کرایا جائے اور ایک بار کی مہم کافی نہیں ہوتی بلکہ پلاسٹک آلودگی کے بارے میں مہم کو وقفے وقفے اور جدید طریقوں سے چلائے جانے کا وقت آ گیا ہے۔ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں کی سوچ ہے کہ حکومت ہی گلی محلوں کو صاف کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ہم اپنی ذمہ داریاں بھول جاتے ہیں۔ گندگی اٹھانے کا چاہے کتنا ہی مربوط نظام کیوں نا ہو اگر ہم شہری اپنی ذمہ داریوں میں غفلت برتیں گے اور جب چاہے اپنی گاڑی میں پلاسٹک بیگ رہنے دیں گے اور چلتی گاڑی سے لفافہ باہر پھینکنے کو ترجیح دیں گے تو پھر اسی طرح ہی سڑک پر نہیں بلکہ گندگی کے اوپر چلیں گے اور گاڑیاں چلائیں گے۔

رضا ہمدانی 

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments