Ticker

6/recent/ticker-posts

تباہی کے دہانے پر کھڑا شہر

آج اس نشست میں گورنر سندھ محمد زبیر، وزیر اطلاعات سندھ حکومت ناصر حسین شاہ اور مئیر کراچی وسیم اخترکے علاوہ شہر کی اہم کاروباری شخصیات اور ممتاز صحافیوں کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ان مسائل پر گفتگو کرنے کی جسارت کروں گا، جو یہ شہر نا پرساں گزشتہ ایک دہائی سے بھگت رہا ہے۔ دراصل صوبے کی حکمران جماعت میں حکمرانی کی اہلیت کا فقدان ہو یا شہروں کی ترقی سے بے اعتناعی یا سیاسی جماعتوں کے درمیان باہمی کشمکش، اس کا خمیازہ پورے سندھ کے عوام بالعموم اور کراچی کے شہری بالخصوص بھگت رہے ہیں۔ اس لیے اپنی گفتگو کو کراچی تک محدود رکھنے کی کوشش کروں گا۔
کراچی جو ملک کا سب سے بڑا شہر، صنعتی مرکز اور مالیاتی سرگرمیوں کا محور ہے، آج بدترین بد انتظامی کا شکار ہے۔ ہر فرد اور ہر ریاستی ادارہ اس کے جسم سے بوٹیاں نوچ کر تو کھا چکا،اب ہڈیاں بھنبھوڑی جا رہی ہیں۔ شہر کا عالم یہ ہے کہ اسے شہر کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ انسانوں کا ایک جنگل ہے، جس میں قرون وسطیٰ کے قبیلوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ جہاں ہر قبیلہ دوسرے قبیلے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ہر عقیدے کا ماننے والا دوسرے عقیدے کے ماننے والے سے خوفزدہ ہے۔

دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ چہار سو کچرے کے لگے ڈھیر، ہر سمت ابلتے گٹر، ٹوٹی پھوٹی شاہراہیں اور سڑکیں حکمرانوں کا منہ چڑاتی اور شہریوں کا دل جلاتی نظر آتی ہیں۔ کبھی شہر میں سویڈن سے درآمد کردہ بسیں اور سرکلر ریلوے چلتی تھی، جو مدت ہوئی مرحوم ہوئیں۔ اب تو یہ عالم ہے کہ لوگ خستہ حال بسوں اور ویگنوں کی چھتوں یا پھر عجیب الخلقت سواری چنگ چی پر سفر کرنے پر مجبور ہی نہیں عادی بھی ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ شہر ہر قسم کے سنگین جرائم کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ طاقتور مافیائیں سیاسی اور سفارشی بنیادوں پر تقرر کی گئی نااہل اور ناکارہ پولیس پورے شہر میں دندنداتی پھرتی ہیں۔ پولیس کا صرف ایک کام رہ گیا ہے کہ وہ روزانہ کروڑوں روپے کی رشوت اکٹھی کر کے حکام بالا تک پہنچاتی ر ہے، جب کہ اکثر و بیشتر پولیس اہلکار بھی مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں۔

شہر میں فراہمی و نکاسی آب کا کوئی نظام ہے اور نہ مناسب تعداد میں صحت مراکز ہیں۔ دو کروڑ کی آبادی کے شہر میں گنتی کے چار یا پانچ سرکاری اسپتال ہیں۔ انگریزوں نے سول اسپتال اس وقت تعمیر کیا تھا، جب شہر کی آبادی دو لاکھ تھی۔ اس لحاظ سے اس وقت شہر میں کم ازکم 20 سول اسپتال ہونا چاہئیں۔ سرکاری اسکولوں کی زبوں حالی تو ناقابل بیان ہے۔ وہ تعلیمی ادارے ، جہاں سے بیشتر نامور مشاہیر تعلیم حاصل کر کے نکلے، آج حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔عمارتیں آثار قدیمہ کا نقشہ پیش کر رہی ہیں، جہاں نہ کوئی سہولت میسر ہے اور نہ ہی اساتذہ حاضر ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کی اکثریت بھی سفارشی ہے۔
اس صورتحال کا سبب یہ ہے کہ دنیا بھر میں اقتدار و اختیار کی زیادہ سے زیادہ عدم مرکزیت کے ذریعے شراکتی جمہوریت کو فروغ دیا جا رہا ہے، مگر پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں اپنے فیوڈل مائنڈ سیٹ کے باعث اقتدار و اختیار کی مرکزیت قائم کرنے پر مصر ہیں۔

فیوڈل ذہنیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے 2001 میں متعارف کرائے گئے مقامی حکومتی نظام کو بیک جنبش قلم منسوخ کر دیا۔ حالانکہ یہ نظام اب تک متعارف کرائے گئے مقامی حکومتی نظاموں میں سب سے زیادہ شراکتی نوعیت کا تھا۔ اسی طرح پولیس آرڈر 2002 میں بہتری لانے کے بجائے اپنی فیوڈل بالادستی قائم رکھنے کی خاطر نو آبادیاتی دور کے پولیس ایکٹ 1861 کو بحال کیا ہے۔ صوبوں میں مقتدر سیاسی جماعتوں بالخصوص سندھ حکومت نے صوبائی اسمبلی میں اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر ایک ایسا بلدیاتی نظام متعارف کرایا ہے، جو برطانوی دور کے بلدیاتی نظام سے بھی کم تر اختیارات کا حامل ہے۔ جس سے صوبائی حکومت کی اقتدار و اختیار پر مرکزیت قائم کرنے کی شدید خواہش کا اظہار ہوتا ہے، تاکہ بلدیاتی کونسلوں کو مفلوج رکھ کر نچلی سطح کے انتظامی یونٹوں کے سیاسی، انتظامی اور مالیاتی امور پر بھی ان کا مکمل کنٹرول قائم رہ سکے۔

یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ برصغیر میں انگریز حکمرانوں نے1870 کے قوانین کے تحت 1883 میں ایک بلدیاتی نظام رائج کیا تھا ۔ ایوب خان اور جنرل ضیاالحق کے متعارف کردہ بلدیاتی نظام اسی نوآبادیاتی بلدیاتی نظام کا چربہ تھے، جب کہ چاروں صوبوں میں 2013 میں متعارف کرائے جانے والے لوکل گورنمنٹ Acts ایوب خان اور ضیاالحق کے بلدیاتی نظاموں کا چربہ ہیں۔ اس لیے سندھ حکومت کا یہ دعویٰ باطل ہو جاتا ہے کہ اس نے ایک آمر (پرویز مشرف) کے مقامی حکومتی نظام کو رد کیا ہے۔ حالانکہ PILDAT سمیت مختلف سماجی تنظیموں کی رائے میں پرویز مشرف کے دور میں متعارف کردہ نظام اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کی جانب مثبت پیش رفت تھا۔ اس نظام پر مختلف سیاسی جماعتوں کا صرف ایک ہی اعتراض رہا ہے کہ اس میں صوبوں کی حیثیت ثانوی کر دی گئی تھی، اب جب کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو خاصی حد تک خود مختاری حاصل ہو گئی ہے، مقامی حکومتی نظام میں صوبوں کو Bye Pass کرنے کا تاثر ختم ہو جاتا ہے، دیگر کمزوریوں کو مناسب آئینی ترامیم کے ذریعے با آسانی دور کیا جا سکتا ہے، مگر ایسا کرنے سے دانستہ گریز کا راستہ اختیار کیا گیا۔

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ دنیا بھر میں وقت گزرنے کے ساتھ مقامی حکومتوں کے اختیارات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ لندن کے مئیر کے اختیارات تو بہت زیادہ ہیں، اس سے متصل چھوٹے سے شہر چیلسی جہاں کچھ عرصہ قبل ایک پاکستانی نژاد برطانوی مشتاق لاشاری مئیر رہ چکے ہیں، کراچی اور لاہور سے زیادہ بااختیار مقامی حکومت ہے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ نے ایک ملین(دس لاکھ) آبادی والے شہر کو میٹروپولیٹن جب کہ 10 ملین (ایک کروڑ) آبادی والے شہر کو میگا سٹی قرار دیا ہے۔ ان شہروں کے لیے مختلف ممالک نے مکمل طور پر ایک علیحدہ انتظامی ڈھانچہ ترتیب دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکا، برطانیہ، جرمنی اور بھارت میں مروج مقامی حکومتی نظاموں کا مطالعہ کر کے ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

اس وقت ہمارے سامنے دو اہم ایشوز ہیں: اول، جو لولا لنگڑا بلدیاتی نظام صوبائی اسمبلیوں نے منظور کیا ہے، کم از کم اس پر دیانتداری کے ساتھ ہی عمل کر لیا جائے، تاکہ عوام کو کسی حد تک ریلیف مل سکے۔ دوئم، ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں شہری سطح پر پیدا ہونے والے مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ ملک میں دو درجاتی (Two tier) انتظامی ڈھانچے کی جگہ تین درجاتی (Three tier) نظام رائج کیا جائے۔ جس میں وفاق، صوبہ اور ضلع بااختیار انتظامی یونٹ ہوں۔ پھر ضلع کو مزید چار درجات (Tier) میں تقسیم کر دیا جائے، یعنی ضلع، تعلقہ (تحصیل)، یونین کونسل اور وارڈ۔ اس طرح شہری مسائل کے حل اور عوام کو فوری ریلیف ملنے کے یقینی امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔

یہ طے ہے کہ شہر چھوٹے ہوں یا بڑے، ان کی حالت زار میں بہتری اسی وقت ممکن ہے، جب اقتدار و اختیار حقیقی معنی میں نچلی سطح پر منتقل ہو۔ یعنی مقامی حکومتوں کو ان کے دائرہ کار کے اندر مکمل سیاسی، انتظامی اور مالیاتی بااختیاریت حاصل ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں، جو عوام کے وسیع تر احساسات کی ترجمان ہوتی ہیں، ان سے یہ توقع کی جانی چاہیے کہ وہ اقتدار و اختیار پر کنڈلی مار کر بیٹھنے کے بجائے ریاستی انتظامی ڈھانچے میں مناسب تبدیلیوں کر کے اسے حقیقی معنی میں نچلے ترین انتظامی یونٹ تک منتقل کر کے عوام کے لیے فوری ریلیف کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گی۔

مقتدا منصور
 

Post a Comment

0 Comments